Al-Hadid • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ سَابِقُوٓا۟ إِلَىٰ مَغْفِرَةٍۢ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ ٱللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ ذُو ٱلْفَضْلِ ٱلْعَظِيمِ ﴾
“[Hence,] vie with one another in seeking to attain to your Sustainer’s forgiveness, and [thus] to a paradise as vast as the heavens and the earth, which has been readied for those who have attained to faith in God and His Apostle: such is the bounty of God which He grants unto whomever He wills - for God is limitless in His great bounty.”
آیت 21{ سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ } ”ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے۔“ دنیا کمانے میں تو تم لوگ خوب مسابقت کر رہے ہو۔ اس میدان میں تو تم ہر وقت ع ”ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں !“ کی فکر میں لگے رہتے ہو۔ عارضی دنیا کی اس مسابقت کو چھوڑو ‘ اپنی یہی صلاحیتیں اللہ کی رضا اور جنت کے حصول کے لیے صرف کرو۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے محنت کرو اور اس منزل میں بہتر سے بہتر مقام پانے کے لیے دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ جنت کی وسعت کی مثال کے لیے یہاں ”کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ“ جبکہ سورة آل عمران کی آیت 133 میں ”عَرْضُھَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضُ“ کے الفاظ آئے ہیں۔ موجودہ دور میں سائنس کی حیرت انگیز ترقی کے باوجود ابھی تک ارض و سماء کی وسعت کے بارے میں انسان کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہرحال اب تک میسر ہونے والی معلومات کے مطابق اس کائنات میں ارب ہا ارب کہکشائیں ہیں۔ ہر کہکشاں کی وسعت اور ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں کے فاصلے کو کروڑوں نوری سالوں پر محیط تصور کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر کہکشاں میں اَن گنت ستارے ‘ ہمارے نظام شمسی solar system جیسے بیشمار نظام اور ہماری زمین جیسے لاتعداد سیارے ہیں۔ اسی طرح ہر ستارے کی جسامت اور ایک ستارے سے دوسرے ستارے تک کے فاصلے کا اندازہ بھی نوری سالوں میں کیا جاسکتا ہے۔ یہاں اس آیت میں آسمان اور زمین کی وسعت سے مراد پوری کائنات کی وسعت ہے جس کا اندازہ کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ بہرحال اس مثال سے جنت کی وسعت کے تصور کو انسانی ذہن کی سطح پر ممکن حد تک قابل فہم بنانا مقصود ہے۔ اس حوالے سے میرا گمان یہ ہے واللہ اعلم ! کہ قیامت برپا ہونے کے بعد پہلی جنت اسی زمین پر بنے گی اور اہل جنت کی ابتدائی مہمانی نُزُل بھی یہیں پر ہوگی۔ اس کے بعد اہل جنت کے درجات و مراتب کے مطابق ان کے لیے آسمانوں کے دروازے کھولے جائیں گے۔ اس حوالے سے سورة الاعراف کی اس آیت میں واضح فرما دیا گیا ہے : { اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآئِ…} آیت 40 کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے اور ان کے بارے میں تکبر کرنے والوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ بہرحال اس کے بعد اہل جنت کو ان کے مراتب کے مطابق اس جنت میں منتقل کردیا جائے گا جس کی وسعت کا یہاں ذکر ہوا ہے۔ اہل جنت کو وہاں جانے کے لیے کسی راکٹ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوگی ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اسی انداز سے آسمانوں پر لے جائے گا جیسے محمد رسول اللہ ﷺ سفر معراج میں زمین سے ساتویں آسمان تک چلے گئے تھے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام ساتویں آسمان سے زمین پر آتے ہیں۔ { اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ } ”وہ تیار کی گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر۔“ ”اِعداد“ بابِ افعال کے معنی ہیں کسی خاص مقصد کے لیے کسی چیز کو تیار کرنا۔ یعنی وہ جنت بڑے اہتمام سے تیار کی گئی ہے ‘ سجائی اور سنواری گئی ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر۔ { ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔ } ”یہ اللہ کا فضل ہے جس کو بھی وہ چاہے گا دے گا۔ اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔“ ”فَضْل“ سے مراد ہے اللہ کی طرف سے بغیر استحقاق کے دی جانے والی شے۔ اس کے بالمقابل اجرت اور اجر کے الفاظ عام استعمال ہوتے ہیں ‘ جن کا مطلب ہے بدلہ ‘ جو کسی محنت اور مزدوری کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لیکن قرآن مجید میں بالعموم جہاں بھی جنت کا تذکرہ آیا ہے وہاں لفظ ”فَضْل“ استعمال ہوا ہے۔ گویا قرآن مجید کا تصور یہ ہے کہ انسان مجرد اپنے عمل کے ذریعے سے جنت کا مستحق نہیں بن سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کی دست گیری نہ کرے۔٭ اب اگلی آیت میں دنیوی زندگی میں پیش آنے والی تکالیف و مشکلات کو قابل برداشت بنانے کا نسخہ بتایا جا رہا ہے۔ دراصل اہل ایمان کو جس راستے کی طرف بلایا جا رہا ہے وہ بہت کٹھن اور صبر آزما راستہ ہے۔ یہ انفاق ‘ جہاد اور قتال کا راستہ ہے اور اس کی منزل ”اقامت دین“ ہے ‘ جس کا ذکر آگے آیت 25 میں آ رہا ہے۔ اس اعتبار سے آیت 25 اس سورت کے ذروئہ سنام climax کا درجہ رکھتی ہیں۔ بہرحال اہل ایمان جب اس راستے پر گامزن ہوں گے تو آزمائشیں ‘ صعوبتیں اور پریشانیاں قدم قدم پر ان کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کریں گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل قانون ہے جس کا ذکر قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ سورة البقرۃ میں ارشادِربانی ہے : { وَلَنَبْلُوَنَّـکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِط } آیت 155 ”اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے“۔ جبکہ سورة آل عمران میں اس قانون کا ذکر ان الفاظ میں بیان ہوا ہے : { لَتُـبْـلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْقف وَلَـتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْـکِتٰبَ مِنْ قَـبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًاط } آیت 186 ”مسلمانو ! یاد رکھو تمہیں لازماً آزمایا جائے گا تمہارے مالوں میں بھی اور تمہاری جانوں میں بھی ‘ اور تمہیں لازماً سننا پڑیں گی بڑی تکلیف دہ باتیں ان لوگوں سے بھی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان سے بھی جنہوں نے شرک کیا“۔ چناچہ مشکلات و مصائب کی اس متوقع یلغار کے دوران اہل ایمان کو سہارا دینے کے لیے یہ نسخہ بتایاجا رہا ہے :