slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 12 من سورة سُورَةُ المُجَادلَةِ

Al-Mujaadila • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا نَٰجَيْتُمُ ٱلرَّسُولَ فَقَدِّمُوا۟ بَيْنَ يَدَىْ نَجْوَىٰكُمْ صَدَقَةًۭ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌۭ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌ ﴾

“O YOU who have attained to faith! Whenever you [intend to] consult the Apostle, offer up something in charity on the occasion of your consultation: this will be for your own good, and more conducive to your [inner] purity. Yet if you are unable to do so, [know that,] verily, God is much-forgiving, a dispen­ser of grace.”

📝 التفسير:

آیت 12{ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰٹکُمْ صَدَقَۃً } ”اے اہل ایمان ! جب تم رسول ﷺ سے تخلیہ میں کوئی بات کرنا چاہو تو اپنی اس بات چیت سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو۔“ اس حکم کا پس منظر یہ ہے کہ منافقین میں سے اکثر لوگ وقتاً فوقتاً بلاوجہ حضور ﷺ سے تخلیہ میں بات کرنے کا تقاضا کرتے تھے۔ حضور ﷺ مروّت کے باعث ہر کسی کی بات مان تو لیتے ‘ لیکن منافقین کا یہ طرزعمل آپ ﷺ کے لیے زحمت کا باعث تھا۔ یہ لوگ حضور ﷺ سے ایسی ملاقاتیں محض اپنی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے کرتے تھے ‘ تاکہ لوگ دیکھیں کہ حضور ﷺ سے علیحدگی میں بات کرنے والا یہ شخص حضور ﷺ کے بہت قریب ہے اور حضور ﷺ کو اس پر بہت اعتماد ہے۔ جیسے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کا معمول تھا کہ حضور ﷺ جب خطبہ جمعہ کے لیے کھڑے ہوتے تو وہ محض اپنی چودھراہٹ جتانے کے لیے فوراً اگلی صف میں کھڑا ہوجاتا اور حاضرین سے مخاطب ہو کر کہتا کہ لوگو ! یہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں ‘ ان کی بات غور سے سنو ! یہ شخص مدینہ کے سب سے بڑے قبیلے خزرج کا سردار تھا۔ حضور ﷺ کی ہجرت سے قبل اہل مدینہ کا اتفاق ہوچکا تھا کہ مدینہ میں ایک مستحکم ریاستی نظام قائم کیا جائے تاکہ روز روز کی جنگوں اور باہمی خون ریزی سے ان کی جان چھوٹ جائے۔ اس کے لیے عبداللہ بن ابی کو بادشاہ بنانے کا فیصلہ ہوچکا تھا اور اس کے لیے تاج بھی تیارہو چکا تھا۔ بس رسم تاجپوشی کا انعقاد باقی تھا کہ حضور ﷺ مدینہ تشریف لے آئے اور آتے ہی مدینہ کے بےتاج بادشاہ بن گئے۔ اس طرح آپ ﷺ کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کی بادشاہت کا خواب ناتمام رہ گیا۔ حالات کا رخ دیکھتے ہوئے اس نے ظاہری طور پر تو مسلمانی کا لبادہ اوڑھ لیا لیکن عمر بھر حضور ﷺ کی مخالفت کا کوئی موقع اس نے ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ بہرحال حالات کی مجبوری تھی کہ ایسا شخص بھی حضور ﷺ سے اپنی قربت جتلانے اور اپنی خصوصی حیثیت نمایاں کرنے کے لیے جمعہ کے اجتماع میں یہ ڈرامہ رچانا ضروری سمجھتا تھا۔ منافقین کے اس طرزعمل کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ذریعے حضور ﷺ سے علیحدگی میں بات کرنے پر ایک طرح کا ٹیکس عائد کردیا کہ اگر تمہارا حضور ﷺ سے علیحدگی میں بات کرنا ایسا ہی ضروری ہے تو پہلے اپنے مال میں سے کچھ صدقہ دو اور پھر آکر اس مقصد کے لیے حضور ﷺ سے وقت مانگو۔ منافقین چونکہ انفاق سے گھبراتے ہیں اس لیے اس حکم کے بعد ان میں سے کسی ایک شخص نے بھی صدقہ دے کر حضور ﷺ سے علیحدگی میں بات کرنے کی درخواست نہ کی۔ یہ حکم البتہ بہت تھوڑی دیر نافذ رہا اور جلد ہی اسے اگلی آیت کے ذریعے منسوخ کردیا گیا۔ حضرت علی رض کہتے ہیں کہ میں واحد شخص تھا جس نے اس حکم پر عمل کیا اور صدقہ دے کر حضور ﷺ سے علیحدگی میں بات کرنے کی درخواست کی۔ { ذٰلِکَ خَیْرٌ لَّــکُمْ وَاَطْہَرُ } ”یہ تمہارے لیے بہتر بھی ہے اور زیادہ پاکیزہ بھی۔“ { فَاِنْ لَّـمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ } ”البتہ اگر تم صدقہ دینے کے لیے کچھ نہ پائو تو اللہ بہت بخشنے والا ‘ بہت رحم کرنے والا ہے۔“ یعنی غریب اور نادار لوگ اس حکم پر عمل نہیں بھی کرسکتے تو کوئی مضائقہ نہیں ‘ اللہ تعالیٰ ان کا عذر قبول فرماتے ہوئے انہیں معاف فرمائے گا۔ لیکن ظاہر ہے جن لوگوں کی وجہ سے یہ حکم نازل ہوا وہ تو سب کے سب متمول ‘ مرفہ الحال اور بڑے لوگ تھے جو حضور ﷺ سے اپنی قربت جتلا کر لوگوں کے سامنے مزید ”بڑے“ بننا چاہتے تھے۔