At-Taghaabun • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ وَٱسْمَعُوا۟ وَأَطِيعُوا۟ وَأَنفِقُوا۟ خَيْرًۭا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِۦ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ ﴾
“Remain, then, conscious of God as best you can, and listen [to Him], and pay heed. And spend in charity for the good of your own selves: for, such as from their own covetousness are saved – it is they, they that shall attain to a happy state!”
اس سورة مبارکہ کی آخری تین آیات ایمان کے عملی تقاضوں کو بالفعل ادا کرنے کی دعوت پر مشتمل ہیں۔ آیت 16{ فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا } ”پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اپنی حد ِامکان تک ‘ اور سنو اور اطاعت کرو“ گویا ایمان باللہ کا عملی تقاضا یہ ہے کہ انسان میں اللہ کا تقویٰ پیدا ہوجائے ‘ اور تقویٰ بھی تھوڑا بہت نہیں ‘ بلکہ امکانی حد تک ‘ جتنا اس کے حد ِاستطاعت میں ہے۔۔۔۔ - البتہ کسی انسان میں کتنی استطاعت و استعداد اور وسعت و طاقت ہے جس کے مطابق وہ مکلف اور جواب دہ ہے ‘ اس کا صحیح شعور و ادراک بسا اوقات اسے خود نہیں ہوتا اور وہ اپنے آپ کو دین کے عملی تقاضوں کے ضمن میں رعایتیں دیتا چلا جاتا ہے ‘ حالانکہ انسان کا خالق خوب جانتا ہے کہ اس نے اس میں کتنی استطاعت ‘ استعداد اور وسعت رکھی ہے۔ چناچہ وہ اسی کے مطابق ہر انسان کا محاسبہ اور مواخذہ فرمائے گا۔ ایمان کے بیان میں دوسرے نمبر پر ذکر تھا ایمان بالرسالت کا ‘ لہٰذا یہاں ایمان کا دوسرا عملی تقاضا ”سمع وطاعت“ کے حوالے سے بیان ہوا ‘ جس کا نقطہ آغاز عملی اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کی ذات و شخصیت ہے۔۔۔۔ - - سمع وطاعت کا تعلق اصلاً ایمان باللہ سے ہے ‘ لیکن عملاً اس کا تعلق ایمان بالرسالت سے ہے ‘ اس لیے کہ اگرچہ مطاع حقیقی تو اللہ ہی ہے ‘ مگر اللہ کا نمائندہ اور اس کے اذن سے بالفعل ”مطاع“ بن کر رسول آتا ہے تو اس کی اطاعت گویا اللہ کی اطاعت ہی ہے۔ جیسے سورة النساء میں فرمایا گیا : { مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَج } آیت 80 ”جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی۔“ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں پر وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا کا حکم خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس حوالے سے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ قبل ازیں آیت 12 میں جب وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کا واضح حکم آچکا ہے تو اب یہاں کون سی اطاعت کے لیے بلایا جا رہا ہے ؟ اس مسئلے کو یوں سمجھئے کہ حضور ﷺ اپنی حیات مبارکہ میں مختلف مواقع پر مختلف امور کے لیے امیر مقرر فرمایا کرتے تھے۔ حضور ﷺ کے مقرر کردہ امیر کی اطاعت بھی متعلقہ اہل ایمان پر اسی طرح لازم تھی جیسے کہ خود حضور ﷺ کی اطاعت۔ اس بارے میں حضور ﷺ کا یہ فرمان بہت واضح ہے : مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ ، وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ، وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِی فَقَدْ عَصَانِی 1”جس نے میری اطاعت کی اس نے اصل میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ‘ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے مقرر کیے ہوئے امیر کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے میرے مقرر کیے ہوئے امیر کی نافرمانی کی اس نے گویا میری نافرمانی کی۔“ غزوئہ احد میں تیر اندازوں کی جس نافرمانی پر سورة آل عمران کی آیت 152 میں بھی وعید آئی اور جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اجتماعی سزا بھی دی گئی وہ دراصل حضور ﷺ کی براہ راست نافرمانی نہیں تھی بلکہ آپ ﷺ کے مقرر کردہ کمانڈر کے حکم کی نافرمانی تھی۔ اسی حوالے سے یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ امیر کی اطاعت صرف حضور ﷺ کی زندگی میں ہی لازم نہیں تھی بلکہ قیامت تک کے لیے لازم ہے اور آیت زیر مطالعہ میں دراصل اسی اطاعت کا ذکر ہے۔ مطلب یہ کہ دعوت و اقامت دین کی جدوجہد کے مشن کو تو قیامت تک زندہ رہنا ہے۔ ہر زمانے میں اللہ کی مشیت اور توفیق سے اللہ کے بندے اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے اٹھتے رہیں گے اور اہل ِ ایمان کو دعوت دیتے رہیں گے۔ چناچہ ہر دور کے اہل ایمان پر لازم ہے کہ جب بھی اللہ کا کوئی بندہ رسول اللہ ﷺ کے مشن کا علمبردار بن کر اٹھے اور مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِکی صدا بلند کرے تو وہ اس کی بات سنیں۔ پھر اگر ان کا دل گواہی دے کہ اس کی دعوت خلوص و اخلاص پر مبنی ہے تو اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کے اعوان و انصار بنیں اور اس کی اطاعت کریں۔ جیسے ماضی قریب میں سید احمد بریلوی رح ‘ حسن البناء شہید رح ‘ مولانا الیاس رح اور مولانا مودودی رح اپنے اپنے زمانے میں پورے خلوص کے ساتھ دعوت و اقامت ِدین کے علمبردار بن کر کھڑے ہوئے تھے اور بہت سے اہل ایمان نے اللہ کی توفیق سے ان کی آواز پر لبیک بھی کہا۔ یہ آیت آج ہم سے بھی تقاضا کرتی ہے کہ ہم ایسے ”داعی الی اللہ“ کی تلاش میں رہیں۔ پھر اگر ہمارا دل گواہی دے کہ اللہ کا فلاں بندہ واقعی خلوص نیت سے رسول اللہ ﷺ کے مشن کو لے کر کھڑا ہوا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی پکار پر لبیک کہیں ‘ تاکہ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے سمع وطاعت کی بنیاد پر ایک مربوط و مضبوط و منظم جماعت وجود میں آسکے۔ ظاہر ہے اگر مسلمان خود کو ایک امیر کے تحت ایسی جماعت کی شکل میں منظم نہیں کریں گے تو ان کی حیثیت ایک ہجوم کی سی رہے گی۔ ذرا تصور کریں ! ہر سال حج کے لیے لاکھوں مسلمانوں کا جو ”ہجوم“ اکٹھا ہوتا ہے ‘ اگر یہ لوگ کسی ایک امیر کے تحت ایک جماعت کی شکل میں منظم ہوتے تو ایک عظیم الشان انقلاب برپا کردیتے۔ اس موضوع پر علامہ اقبال کا یہ شعر بہت بصیرت افروز ہے : ؎عید ِآزاداں شکوہ ملک و دیں عید ِمحکوماں ہجوم مومنیں ! ایمانیات کے ضمن میں آخر میں ایمان بالآخرت کا ذکر تھا ‘ جس کا اہم ترین عملی مظہر انفاق فی سبیل اللہ ہے : { وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا ّلِاَنْفُسِکُمْ } ”اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔“ { وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ } ”اور جو کوئی اپنے جی کے لالچ سے بچالیا گیا تو ایسے ہی لوگ ہوں گے فلاح پانے والے۔“ یعنی جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھا ہے وہ اس کے راستے میں نچھاور کر دو۔ جیسا کہ سورة الحدید میں فرمایا گیا ہے :{ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَـکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَـھُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ۔ } ”ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور خرچ کردو اس سب میں سے جس پر اس نے تمہیں خلافت عطا کی ہے۔ تو جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے اپنے مال و جان کو بھی خرچ کیا ‘ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔“