At-Talaaq • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا۟ ٱلْعِدَّةَ ۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنۢ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّآ أَن يَأْتِينَ بِفَٰحِشَةٍۢ مُّبَيِّنَةٍۢ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُۥ ۚ لَا تَدْرِى لَعَلَّ ٱللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًۭا ﴾
“O PROPHET! When you [intend to divorce women, divorce them with a view to the waiting period appointed for them, and reckon the period [carefully], and be conscious of God, your Sustainer. Do not expel them from their homes; and neither shall they [be made to] leave unless they become openly guilty of immoral conduct. These, then, are the bounds set by God - and he who transgresses the bounds set by God does indeed sin against himself: [for, O man, although] thou knowest it not, after that [first breach] God may well cause something new to come about.”
آیت 1{ یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ } ”اے نبی ﷺ ! جب آپ لوگ اپنی عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے حساب سے طلاق دو اور عدت کا پورا لحاظ رکھو۔“ نوٹ کیجیے ! حضور ﷺ کو صیغہ واحد میں مخاطب کرنے کے بعد فوراً جمع کا صیغہ طَلَّقْتُمْ آگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ خود حضور ﷺ کی ذات سے نہیں ‘ عام اہل ایمان سے متعلق ہے اور آپ ﷺ کو اہل ایمان کے نمائندہ ‘ معلم اور ہادی کی حیثیت سے مخاطب کیا گیا ہے۔ عدت کے حساب سے طلاق دینے اور عدت کا لحاظ رکھنے کے بہت سے پہلو ہیں۔ مجموعی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نازک اور حساس معاملے میں شریعت کی طے کردہ حدود وقیود کا لحاظ رکھو اور متعلقہ قوانین کی سختی سے پابندی کرو۔ مثلاً حیض کی حالت میں طلاق نہ دو ‘ تینوں طلاقیں اکٹھی نہ دو ‘ ہر طلاق کی عدت کا حساب رکھو ‘ عدت کے دوران عورت کا نکاح نہ کرو۔ میاں بیوی کے درمیان ایک یا دو طلاقوں کے بعد ہونے والی علیحدگی کی صورت میں ان دونوں کے آپس میں دوبارہ نکاح کے حق کو تسلیم کرو ‘ وغیرہ وغیرہ۔ { وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّـکُمْ } ”اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جو تمہارا ربّ ہے۔“ { لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْم بُیُوْتِہِنَّ } ”انہیں مت نکال باہر کرو ان کے گھروں سے“ ایسا نہ ہو کہ غصے میں طلاق دی اور کہا کہ نکل جائو میرے گھر سے ‘ ابھی اور اسی وقت ! یہ طریقہ قطعاً غلط ہے۔ { وَلَا یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّـبَـیِّنَۃٍط } ”اور وہ خود بھی نہ نکلیں ‘ سوائے اس کے کہ وہ ارتکاب کریں کسی کھلی بےحیائی کا۔“ عام حالات میں تو طلاق کے فوراً بعد عورت کو گھر سے نہیں نکالا جاسکتا ‘ اور نہ ہی اسے از خود نکلنے کی اجازت ہے۔ لیکن اس دوران اگر وہ بدکاری وغیرہ میں ملوث ہوجائے تو ایسی صورت میں اسے اس گھر سے نکالا جاسکتا ہے۔ { وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ } ”اور یہ اللہ کی حدود ہیں۔“ { وَمَنْ یَّـتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ } ”اور جو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا۔“ { لَا تَدْرِیْ لَـعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا۔ } ”تمہیں نہیں معلوم کہ شاید اس کے بعد اللہ کوئی نئی صورت پیدا کردے۔“ طلاق کے بعد اگر عورت شوہر کے گھر میں ہی عدت گزار رہی ہو تو حالات بہتر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان دونوں میں بہتری کی کوئی صورت پیدا کر دے اور وہ پہلی طلاق کے بعد ہی رجوع کرلیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی مشیت سے حالات ہمیشہ کے لیے سازگار ہوجائیں۔