Al-Mulk • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَقَالُوا۟ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِىٓ أَصْحَٰبِ ٱلسَّعِيرِ ﴾
“And they will add: "Had we but listened [to those warnings], or [at least] used our own reason, we would not [now] be among those who are destined for the blazing flame!"”
آیت 10{ وَقَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ } ”اور وہ کہیں گے کہ اگر ہم سنتے اور عقل سے کام لیتے“ { مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ۔ } ”تو ہم نہ ہوتے ان جہنم والوں میں سے۔“ اس آیت میں انبیاء و رسل علیہ السلام کی تکذیب کرنے والوں کے اصل گناہ کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ اس اعتبار سے قرآن مجید کا یہ مقام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ایسے تمام لوگوں کا بنیادی اور اصل جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی دعوت سنی اَن سنی کردی تھی۔ اس دعوت پر انہوں نے کبھی سنجیدگی سے غو رہی نہ کیا اور نہ ہی پیغمبروں کی باتوں کو کبھی عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی زحمت گوارا کی۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیکھنے ‘ سننے ‘ سمجھنے وغیرہ کی صلاحیتیں اسی لیے تو دی ہیں کہ وہ ان صلاحیتوں کو کام میں لائے اور اپنے نفع و نقصان کے حوالے سے درست فیصلے کرے۔ اسی بنیاد پر آخرت میں انسان کی ان تمام صلاحیتوں کا احتساب بھی ہوگا : { اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً۔ } بنی اسرائیل ”یقینا سماعت ‘ بصارت اور عقل سبھی کے بارے میں بازپرس کی جائے گی“۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو یہ صلاحیتیں استعمال میں لانے کے لیے دی ہیں ‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ حق کی دعوت کے جواب میں اکثر لوگ ان صلاحیتوں سے بالکل بھی کام نہیں لیتے۔ بلکہ اگر بات سمجھ میں آبھی جائے اور دل اس کی صداقت کی گواہی بھی دے دے ‘ تب بھی عملی طور پر قدم آگے نہیں بڑھتا۔ صرف اس لیے کہ آباء و اَجداد کے اعتقادات و نظریات ہیں ‘ برادری کے رسم و رواج ہیں ! انہیں کیسے چھوڑ دیں ؟ اور اگر چھوڑیں گے تو لوگ کیا کہیں گے ؟ اسی نوعیت کی ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ پرانے مسلک سے روگردانی بھلا کیونکر ممکن ہے ؟ اتنے عرصے سے اس جماعت میں ہیں ‘ اب یکدم اس سے کیسے بےوفائی کردیں ؟