slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الحاقة

(Al-Haqqah) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الْحَاقَّةُ

📘 آیت 1 { اَلْحَآقَّۃُ۔ } ”وہ حق ہوجانے والی !“ یعنی قیامت جس کا وقوع پذیر ہونا حق ہے ‘ اس کا واقع ہونا ایک مسلمہ ّصداقت اور اٹل حقیقت ہے جس میں قطعاً کوئی شک نہیں۔

فَعَصَوْا رَسُولَ رَبِّهِمْ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رَابِيَةً

📘 آیت 9 { وَجَآئَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَہٗ وَالْمُؤْتَفِکٰتُ بِالْخَاطِئَۃِ۔ } ”اور اسی طرح فرعون اور اس سے پہلے والوں نے ‘ اور الٹ دی جانے والی بستیوں کے باسیوں نے بھی خطاکاری کی روش اختیار کی تھی۔“ الٹائی جانے والی بستیوں سے مراد قوم لوط کی بستیاں ہیں۔

إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ

📘 آیت 1 1 { اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآئُ حَمَلْنٰـکُمْ فِی الْْجَارِیَۃِ۔ } ”جب سیلابِ نوح علیہ السلام کا پانی طغیانی پر آیا تھا تو ہم نے تمہیں سوار کرا لیا تھا کشتی پر۔“ اس سیلاب کے بعد نوع انسانی کی نسل حضرت نوح علیہ السلام کے انہی تین بیٹوں سے چلی جو اس کشتی میں سوار تھے ‘ اس لیے آیت کے اسلوب سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے پوری نوع انسانی کشتی میں سوار تھی۔

لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ

📘 آیت 12 { لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَّتَعِیَہَآ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ۔ } ”تاکہ ہم اس کو تمہارے لیے ایک یاددہانی بنا دیں اور وہ کان جو حفاظت کرنے والے ہیں اس کو پوری حفاظت سے یاد رکھیں۔“ ان آیات میں ”التَّذْکِیر بایَّامِ اللّٰہ“ کا بیان تھا۔ اس کے بعد اب آخرت کا ذکر آ رہا ہے۔ ایک لحاظ سے تو یہ بھی اَیَّام اللّٰہ ہی کے تذکرے کا حصہ ہے ‘ کیونکہ وقت کی ڈور میں ایک طرف اگر گزشتہ اقوام کے عبرت ناک واقعات پروئے ہوئے ہیں تو اسی ڈور کا دوسرا سرا آخرت ہے۔

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةٌ وَاحِدَةٌ

📘 آیت 13 { فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔ } ”تو جب صور میں پھونکا جائے گا یکبارگی۔“ یعنی اس وقت کو یاد رکھو جب ایک ہی بار صور میں پھونک مار دی جائے گی۔

وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً

📘 آیت 13 { فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔ } ”تو جب صور میں پھونکا جائے گا یکبارگی۔“ یعنی اس وقت کو یاد رکھو جب ایک ہی بار صور میں پھونک مار دی جائے گی۔

فَيَوْمَئِذٍ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ

📘 آیت 13 { فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔ } ”تو جب صور میں پھونکا جائے گا یکبارگی۔“ یعنی اس وقت کو یاد رکھو جب ایک ہی بار صور میں پھونک مار دی جائے گی۔

وَانْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَهِيَ يَوْمَئِذٍ وَاهِيَةٌ

📘 آیت 13 { فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔ } ”تو جب صور میں پھونکا جائے گا یکبارگی۔“ یعنی اس وقت کو یاد رکھو جب ایک ہی بار صور میں پھونک مار دی جائے گی۔

وَالْمَلَكُ عَلَىٰ أَرْجَائِهَا ۚ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ

📘 آیت 13 { فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔ } ”تو جب صور میں پھونکا جائے گا یکبارگی۔“ یعنی اس وقت کو یاد رکھو جب ایک ہی بار صور میں پھونک مار دی جائے گی۔

يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَىٰ مِنْكُمْ خَافِيَةٌ

📘 آیت 13 { فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔ } ”تو جب صور میں پھونکا جائے گا یکبارگی۔“ یعنی اس وقت کو یاد رکھو جب ایک ہی بار صور میں پھونک مار دی جائے گی۔

فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ

📘 آیت 13 { فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔ } ”تو جب صور میں پھونکا جائے گا یکبارگی۔“ یعنی اس وقت کو یاد رکھو جب ایک ہی بار صور میں پھونک مار دی جائے گی۔

مَا الْحَاقَّةُ

📘 آیت 1 { اَلْحَآقَّۃُ۔ } ”وہ حق ہوجانے والی !“ یعنی قیامت جس کا وقوع پذیر ہونا حق ہے ‘ اس کا واقع ہونا ایک مسلمہ ّصداقت اور اٹل حقیقت ہے جس میں قطعاً کوئی شک نہیں۔

إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيَهْ

📘 آیت 20{ اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ۔ } ”وہ کہے گا : مجھے یقین تھا کہ مجھے اپنے حساب سے دوچار ہونا ہے۔“ مجھے یقین تھا کہ مجھے میرے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا۔

فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ

📘 آیت 21 { فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ۔ } ”پس وہ پسندیدہ زندگی بسر کرے گا۔“ وہ خوش نصیب دل پسند عیش میں ہوگا۔ اسے ایسی زندگی عطا کی جائے گی جس میں ہر طرح کی رضا ہی رضاہو گی۔

فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ

📘 آیت 21 { فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ۔ } ”پس وہ پسندیدہ زندگی بسر کرے گا۔“ وہ خوش نصیب دل پسند عیش میں ہوگا۔ اسے ایسی زندگی عطا کی جائے گی جس میں ہر طرح کی رضا ہی رضاہو گی۔

قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ

📘 آیت 21 { فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ۔ } ”پس وہ پسندیدہ زندگی بسر کرے گا۔“ وہ خوش نصیب دل پسند عیش میں ہوگا۔ اسے ایسی زندگی عطا کی جائے گی جس میں ہر طرح کی رضا ہی رضاہو گی۔

كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ

📘 آیت 21 { فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ۔ } ”پس وہ پسندیدہ زندگی بسر کرے گا۔“ وہ خوش نصیب دل پسند عیش میں ہوگا۔ اسے ایسی زندگی عطا کی جائے گی جس میں ہر طرح کی رضا ہی رضاہو گی۔

وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ

📘 { فَیَقُوْلُ یٰـلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتٰبِیَہْ۔ } ”وہ کہے گا : اے کاش ! مجھے میرا اعمال نامہ دیا ہی نہ گیا ہوتا۔“”مرا اے کاش کہ مادر نہ زادے“ کاش ! میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا !

وَلَمْ أَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ

📘 { فَیَقُوْلُ یٰـلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتٰبِیَہْ۔ } ”وہ کہے گا : اے کاش ! مجھے میرا اعمال نامہ دیا ہی نہ گیا ہوتا۔“”مرا اے کاش کہ مادر نہ زادے“ کاش ! میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا !

يَا لَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ

📘 آیت 27{ یٰـلَیْتَہَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ۔ } ”اے کاش کہ وہی موت قصہ پاک کردینے والی ہوتی !“ کاش کہ وہی موت جو مجھے دنیا میں آئی تھی فیصلہ کن ہوتی ‘ اس موت کے بعد میں معدوم ہوگیا ہوتا اور میرے دوبارہ زندہ ہونے کی نوبت نہ آتی۔

مَا أَغْنَىٰ عَنِّي مَالِيَهْ ۜ

📘 آیت 27{ یٰـلَیْتَہَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ۔ } ”اے کاش کہ وہی موت قصہ پاک کردینے والی ہوتی !“ کاش کہ وہی موت جو مجھے دنیا میں آئی تھی فیصلہ کن ہوتی ‘ اس موت کے بعد میں معدوم ہوگیا ہوتا اور میرے دوبارہ زندہ ہونے کی نوبت نہ آتی۔

هَلَكَ عَنِّي سُلْطَانِيَهْ

📘 آیت 29 { ہَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ۔ } ”میرا اقتدار بھی مجھ سے چھن گیا۔“ میرے دنیوی اختیار و اقتدار اور میری شان و شوکت میں سے کچھ بھی باقی نہ بچا ‘ سب کچھ نیست و نابود ہوگیا۔ ایسے ہر شخص کے لیے فرشتوں کو حکم دیا جائے گا :

وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْحَاقَّةُ

📘 آیت 1 { اَلْحَآقَّۃُ۔ } ”وہ حق ہوجانے والی !“ یعنی قیامت جس کا وقوع پذیر ہونا حق ہے ‘ اس کا واقع ہونا ایک مسلمہ ّصداقت اور اٹل حقیقت ہے جس میں قطعاً کوئی شک نہیں۔

خُذُوهُ فَغُلُّوهُ

📘 آیت 29 { ہَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ۔ } ”میرا اقتدار بھی مجھ سے چھن گیا۔“ میرے دنیوی اختیار و اقتدار اور میری شان و شوکت میں سے کچھ بھی باقی نہ بچا ‘ سب کچھ نیست و نابود ہوگیا۔ ایسے ہر شخص کے لیے فرشتوں کو حکم دیا جائے گا :

ثُمَّ الْجَحِيمَ صَلُّوهُ

📘 آیت 29 { ہَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ۔ } ”میرا اقتدار بھی مجھ سے چھن گیا۔“ میرے دنیوی اختیار و اقتدار اور میری شان و شوکت میں سے کچھ بھی باقی نہ بچا ‘ سب کچھ نیست و نابود ہوگیا۔ ایسے ہر شخص کے لیے فرشتوں کو حکم دیا جائے گا :

ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ

📘 آیت 29 { ہَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ۔ } ”میرا اقتدار بھی مجھ سے چھن گیا۔“ میرے دنیوی اختیار و اقتدار اور میری شان و شوکت میں سے کچھ بھی باقی نہ بچا ‘ سب کچھ نیست و نابود ہوگیا۔ ایسے ہر شخص کے لیے فرشتوں کو حکم دیا جائے گا :

إِنَّهُ كَانَ لَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ

📘 آیت 29 { ہَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ۔ } ”میرا اقتدار بھی مجھ سے چھن گیا۔“ میرے دنیوی اختیار و اقتدار اور میری شان و شوکت میں سے کچھ بھی باقی نہ بچا ‘ سب کچھ نیست و نابود ہوگیا۔ ایسے ہر شخص کے لیے فرشتوں کو حکم دیا جائے گا :

وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ

📘 آیت 34{ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ۔ } ”اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔“ اسے خود تو کسی مسکین کو کھانا کھلانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی ‘ کسی دوسرے شخص کو بھی اس نے بھلائی کے اس کام کی کبھی ترغیب نہیں دی۔

فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا حَمِيمٌ

📘 آیت 34{ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ۔ } ”اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔“ اسے خود تو کسی مسکین کو کھانا کھلانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی ‘ کسی دوسرے شخص کو بھی اس نے بھلائی کے اس کام کی کبھی ترغیب نہیں دی۔

وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ

📘 آیت 34{ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ۔ } ”اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔“ اسے خود تو کسی مسکین کو کھانا کھلانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی ‘ کسی دوسرے شخص کو بھی اس نے بھلائی کے اس کام کی کبھی ترغیب نہیں دی۔

لَا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخَاطِئُونَ

📘 آیت 34{ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ۔ } ”اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔“ اسے خود تو کسی مسکین کو کھانا کھلانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی ‘ کسی دوسرے شخص کو بھی اس نے بھلائی کے اس کام کی کبھی ترغیب نہیں دی۔

فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ

📘 سورة الحاقہ کے دوسرے رکوع کی سورة الواقعہ کے آخری رکوع سے گہری مشابہت ہے۔ چناچہ اگلی آیات کو پڑھتے ہوئے سورة الواقعہ کی ان آیات کو بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے : { فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ - وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ - اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ۔ } ”تو نہیں ! قسم ہے مجھے ان مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔ اور یقینا یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو ! یقینا یہ بہت عزت والا قرآن ہے۔“

وَمَا لَا تُبْصِرُونَ

📘 سورة الحاقہ کے دوسرے رکوع کی سورة الواقعہ کے آخری رکوع سے گہری مشابہت ہے۔ چناچہ اگلی آیات کو پڑھتے ہوئے سورة الواقعہ کی ان آیات کو بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے : { فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ - وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ - اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ۔ } ”تو نہیں ! قسم ہے مجھے ان مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔ اور یقینا یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو ! یقینا یہ بہت عزت والا قرآن ہے۔“

كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ

📘 آیت 4 { کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَعَادٌم بِالْقَارِعَۃِ۔ } ”جھٹلایا تھا ثمود نے بھی اور عاد نے بھی اس کھڑکھڑا دینے والی کو۔“ القارعۃ سے مراد بھی قیامت ہے۔ قَـرَعَ کا معنی ہے ایک سخت چیز کو دوسری چیز سے ٹکرانا ‘ کو ٹنا ‘ ریزہ ریزہ کردینا ‘ کھڑکھڑا دینا ‘ یا بہت زور سے کھٹکھٹانا۔ الحاقّۃ اور القارعۃ ان دونوں الفاظ کے مابین ایک نسبت یہ بھی ہے کہ یہ دوسورتوں کے نام ہیں اور ان دونوں سورتوں کے آغاز کا انداز بھی ایک جیسا ہے۔ چناچہ سورة القارعۃ کا آغاز بھی بالکل اسی طرح ہو رہا ہے : { اَلْقَارِعَۃُ - مَا الْقَارِعَۃُ - وَمَـآ اَدْرٰٹکَ مَا الْقَارِعَۃُ۔ }

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ

📘 آیت 40{ اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ۔ } ”یہ قول ہے ایک رسول کریم کا۔“ اصل میں تو یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سنا۔ پھر حضرت جبرائیل سے حضرت محمد ﷺ نے سنا اور اب وہ لوگوں کو سنا رہے تھے۔ چناچہ ایک لحاظ سے یہ جبرائیل علیہ السلام کا قول تھا اور دوسرے لحاظ سے حضور ﷺ کا قول۔

وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ

📘 آیت 40{ اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ۔ } ”یہ قول ہے ایک رسول کریم کا۔“ اصل میں تو یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سنا۔ پھر حضرت جبرائیل سے حضرت محمد ﷺ نے سنا اور اب وہ لوگوں کو سنا رہے تھے۔ چناچہ ایک لحاظ سے یہ جبرائیل علیہ السلام کا قول تھا اور دوسرے لحاظ سے حضور ﷺ کا قول۔

وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ

📘 آیت 40{ اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ۔ } ”یہ قول ہے ایک رسول کریم کا۔“ اصل میں تو یہ اللہ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سنا۔ پھر حضرت جبرائیل سے حضرت محمد ﷺ نے سنا اور اب وہ لوگوں کو سنا رہے تھے۔ چناچہ ایک لحاظ سے یہ جبرائیل علیہ السلام کا قول تھا اور دوسرے لحاظ سے حضور ﷺ کا قول۔

تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 آیت 43{ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ } ”اس کا اتارا جانا ہے تمام جہانوں کے رب کی طرف سے۔“ یہ آیت جوں کی توں سورة الواقعہ آیت 80 میں بھی ہے۔

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ

📘 آیت 44{ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ۔ } ”اور اگر یہ نبی ﷺ خود گھڑ کر بعض باتیں ہماری طرف منسوب کرتا۔“ تَقَوَّلَ باب تفعل ہے ‘ اس باب میں تکلف کے معنی پائے جاتے ہیں ‘ یعنی ارادے ‘ محنت اور کوشش سے کوئی بات کہنا۔

لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ

📘 آیت 45{ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ۔ } ”تو ہم پکڑتے اس کو داہنے ہاتھ سے۔“ اس فقرے کے مفہوم میں دو امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ ہم اپنے دائیں ہاتھ سے اسے پکڑتے ‘ یا یہ کہ ہم اسے اس کے داہنے ہاتھ سے پکڑتے۔

ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ

📘 آیت 46{ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ۔ } ”پھر اس کی گردن کاٹ ڈالتے۔“ اس اسلوب اور لہجے میں جو سختی ہے یہ دراصل ان لوگوں کے لیے ہے جو قرآن کو کلام اللہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے اور کہتے تھے کہ محمد ﷺ خود اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ بدبختو ! تم ہمارے رسول کریم ﷺ کے مرتبے کو کیا سمجھو ! کسی رسول کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ اپنے رب کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی ملاوٹ کرے۔ وہ تم لوگوں تک ٹھیک ٹھیک وہی کچھ پہنچا رہے ہیں جو ہمارا کلام ہے۔ بفرضِ محال اگر وہ اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیں تو یہ کوئی معمولی سا جرم نہیں ہے جس کا نوٹس نہ لیا جائے۔

فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ

📘 آیت 46{ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ۔ } ”پھر اس کی گردن کاٹ ڈالتے۔“ اس اسلوب اور لہجے میں جو سختی ہے یہ دراصل ان لوگوں کے لیے ہے جو قرآن کو کلام اللہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے اور کہتے تھے کہ محمد ﷺ خود اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ بدبختو ! تم ہمارے رسول کریم ﷺ کے مرتبے کو کیا سمجھو ! کسی رسول کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ اپنے رب کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی ملاوٹ کرے۔ وہ تم لوگوں تک ٹھیک ٹھیک وہی کچھ پہنچا رہے ہیں جو ہمارا کلام ہے۔ بفرضِ محال اگر وہ اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیں تو یہ کوئی معمولی سا جرم نہیں ہے جس کا نوٹس نہ لیا جائے۔

وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِلْمُتَّقِينَ

📘 آیت 48{ وَاِنَّہٗ لَتَذْکِرَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ } ”اور یقینا یہ تو ایک یاد دہانی ہے متقین کے لیے۔“ یہ کلام ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور نیکی و بدی میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنْكُمْ مُكَذِّبِينَ

📘 آیت 49{ وَاِنَّا لَنَعْلَمُ اَنَّ مِنْکُمْ مُّکَذِّبِیْنَ۔ } ”اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ تم میں کچھ لوگ جھٹلانے والے بھی ہیں۔“ وہ ہمارے کلام کو جھٹلانے پر کمربستہ ہوچکے ہیں کہ جو چاہے ہو وہ اسے اللہ کا کلام نہیں مانیں گے۔

فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ

📘 آیت 5{ فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُہْلِکُوْا بِالطَّاغِیَۃِ۔ } ”پس ثمود تو ہلاک کردیے گئے ایک حد سے بڑھ جانے والی آفت سے۔“ الطاغیۃ کے لغوی معنی حد سے گزر جانے والی چیز کے ہیں۔ یعنی انتہائی شدت والی چیز۔ اس کے لیے قرآن حکیم کے مختلف مقامات پر الرَّجفۃ زبردست زلزلہ ‘ الصَّیحۃ زور کا دھماکہ یا کڑک ‘ صَاعِقَۃ گرج الفاظ مذکور ہیں ‘ جو عذاب کی مختلف کیفیات کو بیان کرتے ہیں۔

وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ

📘 آیت 50{ وَاِنَّہٗ لَحَسْرَۃٌ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ۔ } ”اور یقینا یہ کافروں کے لیے حسرت کا باعث بن جائے گا۔“ ایک وقت آئے گا جب قرآن ان جھٹلانے والوں کے لیے حسرت اور پچھتاوے کا سبب بن جائے گا۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے : اَلْـقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ 1۔ کہ یہ قرآن حجت ہے تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف۔ اگر تو تم اس کے حقوق ادا کرو گے ‘ اس پر ایمان لائو گے ‘ اسے اپنا امام بنا کر اس کے پیچھے چلو گے اور اس کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کرو گے تو یہ قیامت کے دن تمہاری شفاعت کرے گا اور اگر تم اس کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کرو گے تو قیامت کے دن یہ تمہارے خلاف گواہ بن کر کھڑا ہوگا۔

وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ

📘 آیت 51{ وَاِنَّہٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ۔ } ”اور یقینا یہ قرآن بالکل یقینی حق ہے۔“ یہ ایسا یقین ہے جو سراسر حق ہے ‘ جس میں باطل کی ذرا ملاوٹ تک نہیں۔

فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ

📘 آیت 52{ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ۔ } ”پس آپ ﷺ تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی جو کہ بہت عظمت والا ہے۔“ نوٹ کیجیے ‘ سورة الواقعہ کا اختتام بھی اسی آیت پر ہوتا ہے۔

وَأَمَّا عَادٌ فَأُهْلِكُوا بِرِيحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍ

📘 آیت 5{ فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُہْلِکُوْا بِالطَّاغِیَۃِ۔ } ”پس ثمود تو ہلاک کردیے گئے ایک حد سے بڑھ جانے والی آفت سے۔“ الطاغیۃ کے لغوی معنی حد سے گزر جانے والی چیز کے ہیں۔ یعنی انتہائی شدت والی چیز۔ اس کے لیے قرآن حکیم کے مختلف مقامات پر الرَّجفۃ زبردست زلزلہ ‘ الصَّیحۃ زور کا دھماکہ یا کڑک ‘ صَاعِقَۃ گرج الفاظ مذکور ہیں ‘ جو عذاب کی مختلف کیفیات کو بیان کرتے ہیں۔

سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ

📘 آیت 7{ سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍلا حُسُوْمًالا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْہَا صَرْعٰیلا کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ۔ } ”اللہ نے مسلط کردیا اسے ان پر مسلسل سات راتوں اور آٹھ دنوں تک ‘ ان کی بیخ کنی کے لیے ‘ تو تم دیکھتے ان لوگوں کو کہ وہاں ایسے پچھڑے پڑے ہیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں۔“ قومِ عاد کے لوگ بہت قد آور تھے ‘ اس لیے انہیں کھجور کے تنوں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

فَهَلْ تَرَىٰ لَهُمْ مِنْ بَاقِيَةٍ

📘 آیت 7{ سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍلا حُسُوْمًالا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْہَا صَرْعٰیلا کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ۔ } ”اللہ نے مسلط کردیا اسے ان پر مسلسل سات راتوں اور آٹھ دنوں تک ‘ ان کی بیخ کنی کے لیے ‘ تو تم دیکھتے ان لوگوں کو کہ وہاں ایسے پچھڑے پڑے ہیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں۔“ قومِ عاد کے لوگ بہت قد آور تھے ‘ اس لیے انہیں کھجور کے تنوں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

وَجَاءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهُ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ

📘 آیت 9 { وَجَآئَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَہٗ وَالْمُؤْتَفِکٰتُ بِالْخَاطِئَۃِ۔ } ”اور اسی طرح فرعون اور اس سے پہلے والوں نے ‘ اور الٹ دی جانے والی بستیوں کے باسیوں نے بھی خطاکاری کی روش اختیار کی تھی۔“ الٹائی جانے والی بستیوں سے مراد قوم لوط کی بستیاں ہیں۔