Al-A'raaf • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ ثُمَّ بَعَثْنَا مِنۢ بَعْدِهِم مُّوسَىٰ بِـَٔايَٰتِنَآ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَإِي۟هِۦ فَظَلَمُوا۟ بِهَا ۖ فَٱنظُرْ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُفْسِدِينَ ﴾
“AND AFTER those [early people] We sent Moses with Our messages unto Pharaoh and his great ones, and they wilfully rejected them: and behold what happened in the end to those spreaders of corruption!”
آیت 103 ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْم بَعْدِہِمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاءِہٖ اب تک جن پانچ قوموں کا ذکر ہوا ہے وہ جزیرہ نمائے عرب ہی کے مختلف علاقوں میں بستی تھیں ‘ لیکن اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے بنی اسرائیل کا ذکر ہوگا جو مصر کے باسی تھے۔ مصر بر اعظم افریقہ کے شمال مشرقی کونے میں واقع ہے۔ اس قصے میں صحرائے سینا کا بھی ذکر آئے گا ‘ جو مثلث شکل میں ایک جزیرہ نما Sinai Peninsula ہے ‘ جو مصر اور فلسطین کے درمیان واقع ہے۔ مصر میں اس وقت فراعنہ فرعون کی جمع کی حکومت تھی۔ جس طرح عراق کے قدیم بادشاہ نمرود کہلاتے تھے اسی طرح مصر میں اس دور کے بادشاہ کو فرعون کہا جاتا تھا۔ چناچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو براہ راست اپنے وقت کے بادشاہ فرعون کے پاس بھیجا گیا تھا۔فَظَلَمُوْا بِہَاج فانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ یعنی ہماری نشانیوں کا انکار کر کے ان کی حق تلفی کی اور انہیں جادوگری قرار دے کر ٹالنے کی کوشش کی۔