Al-A'raaf • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَمَا تَنقِمُ مِنَّآ إِلَّآ أَنْ ءَامَنَّا بِـَٔايَٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَا ۚ رَبَّنَآ أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًۭا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ﴾
“for thou takest vengeance on us only because we have come to believe in our Sustainer's messages as soon as they came to us. O our Sustainer! Shower us with patience in adversity, and make us die as men who have surrendered themselves unto Thee!"”
آیت 126 وَمَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلآَّ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَ تْنَا ط رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ یعنی ایمان کے راستے میں جو آزمائش آنے والی ہے اس کی سختیوں کو جھیلتے ہوئے کہیں دامن صبر ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ نہ جائے اور ہم کفر میں دوبارہ لوٹ نہ جائیں۔ اے اللہ ! ہمیں صبر اور استقامت عطا فرما ‘ اور اگر ہمیں موت آئے تو تیری اطاعت اور فرمانبرداری کی حالت میں آئے۔ اس واقعے کے بعد بھی فرعون عملی طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہ کرسکا۔ چناچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اب بھی شہر میں لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا نے اور بنی اسرائیل کو منظم کرنے میں مصروف رہے۔ قوم کے نوجوانوں نے آپ علیہ السلام کی دعوت پر لبیک کہا اور وہ آپ علیہ السلام کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔ آپ علیہ السلام کی اس طرح کی سرگرمیوں سے حکومتی عہدیداروں کے اندربجا طور پر تشویش پیدا ہوئی اور بالآخر انہوں نے فرعون سے اس بارے میں شکایت کی۔