slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 150 من سورة سُورَةُ الأَعۡرَافِ

Al-A'raaf • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

﴿ وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَىٰٓ إِلَىٰ قَوْمِهِۦ غَضْبَٰنَ أَسِفًۭا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِى مِنۢ بَعْدِىٓ ۖ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ ۖ وَأَلْقَى ٱلْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُۥٓ إِلَيْهِ ۚ قَالَ ٱبْنَ أُمَّ إِنَّ ٱلْقَوْمَ ٱسْتَضْعَفُونِى وَكَادُوا۟ يَقْتُلُونَنِى فَلَا تُشْمِتْ بِىَ ٱلْأَعْدَآءَ وَلَا تَجْعَلْنِى مَعَ ٱلْقَوْمِ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴾

“And when Moses returned to his people, full of wrath and sorrow, he exclaimed: "Vile is the course which you have followed in my absence! Have you forsaken your Sustainer's commandment?" And he threw down the tablets [of the Law], and seized his brother's head, dragging him towards himself. Cried Aaron: "O my mother's son! Behold, the people brought me low and almost slew me: so let not mine enemies rejoice at my affliction, and count me not among the evildoing folk!"”

📝 التفسير:

آیت 150 وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓی اِلٰی قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًالا غَضْبَان ‘ رَحْمٰنکی طرح فعلان کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے۔ یعنی آپ علیہ السلام نہایت غضبناک تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مزاج بھی جلالی تھا اور قوم کے جرم اور گمراہی کی نوعیت بھی بہت شدید تھی۔ پھرا للہ تعالیٰ نے کوہ طور پر ہی بتادیا تھا کہ تمہاری قوم فتنہ میں پڑچکی ہے لہٰذا ان کا غم و غصہ اور رنج و افسوس بالکل بجا تھا۔قَالَ بِءْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْم بَعْدِیْ ج۔ یہ خطاب حضرت ہارون علیہ السلام سے بھی ہوسکتا ہے اور اپنی پوری قوم سے بھی۔ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّکُمْ ج یعنی اگر سامری نے فتنہ کھڑا کر ہی دیا تھا تو تم لوگ اس قدر جلد بغیر سوچے سمجھے اس کے کہنے میں آگئے ؟ کم از کم میرے واپس آنے کا ہی انتظار کرلیتے !وَاَلْقَی الْاَلْوَاحَ کوہ طور سے جو تورات کی تختیاں لے کر آئے تھے وہ ابھی تک آپ علیہ السلام کے ہاتھ میں ہی تھیں ‘ تو آپ علیہ السلام نے ان تخیتوں کو ایک طرف زمین پر رکھ دیا۔وَاَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِ یَجُرُّہٗٓ اِلَیْہِ ط۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غصے میں حضرت ہارون علیہ السلام کو سر کے بالوں سے پکڑکر اپنی طرف کھینچا اور کہا کہ میں تمہیں اپنا خلیفہ بنا کر گیا تھا ‘ میرے پیچھے تم نے یہ کیا کیا ؟ تم نے قوم کے لوگوں کو اس بچھڑے کی پوجا کرنے سے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ ز میں نے تو ان لوگوں کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا ‘ لیکن انہوں نے مجھے بالکل بےبس کردیا تھا۔ اس معاملے میں ان لوگوں نے اس حد تک جسارت کی تھی کہ وہ میری جان کے درپے ہوگئے تھے۔ فَلاَ تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآءَ شماتتِ اَعداء کا محاورہ ہمارے ہاں اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے ‘ یعنی کسی کی توہین اور بےعزتی پر اس کے دشمنوں کا خوش ہونا اور ہنسنا۔ حضرت ہارون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ اب اس طرح میرے بال کھینچ کر آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں۔وَلاَ تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ آپ مجھے ان ظالموں کے ساتھ شمار نہ کیجیے۔ میں اس معاملے میں ہرگز ان کے ساتھ نہیں ہوں۔ میں تو انہیں اس حرکت سے منع کرتا رہا تھا۔