Al-A'raaf • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِـَٔايَةٍۢ قَالُوا۟ لَوْلَا ٱجْتَبَيْتَهَا ۚ قُلْ إِنَّمَآ أَتَّبِعُ مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ مِن رَّبِّى ۚ هَٰذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًۭى وَرَحْمَةٌۭ لِّقَوْمٍۢ يُؤْمِنُونَ ﴾
“And yet, when thou [O Prophet] dost not produce any miracle for them, some [people] say, "Why dost thou not seek to obtain it [from God]? Say: "I only follow whatever is being revealed to me by my Sustainer: this [revelation] is a means of insight from your Sustainer, and a guidance and grace unto people who will believe.”
آخر میں ان دونوں سورتوں کے مضامین کے عمود کا خلاصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ جس زمانے میں یہ دو سورتیں نازل ہوئیں اس وقت کفار مکہ کی طرف سے یہ مطالبہ تکرار کے ساتھ کیا جارہا تھا کہ کوئی نشانی لاؤ ‘ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ جس طرح کے حسی معجزات حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملے تھے ‘ اسی نوعیت کے معجزات اہل مکہ بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ جیسے جیسے ان کی طرف سے مطالبات آتے رہے ‘ ساتھ ساتھ ان کے جوابات بھی دیے جاتے رہے۔ اب اس سلسلے میں آخری بات ہو رہی ہے۔ آیت 203 وَاِذَا لَمْ تَاْتِہِمْ بِاٰیَۃٍ قَالُوْا لَوْلاَ اجْتَبَیْتَہَا ط کفار مکہ کا کہنا تھا کہ جب آپ ﷺ کا دعویٰ ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ‘ اس کے محبوب ہیں تو آپ کے لیے معجزہ دکھانا کون سا مشکل کام ہے ؟ آپ ہمارے اطمینان کے لیے کوئی معجزہ چھانٹ کرلے آئیں ! اس سلسلے میں تفسیر کبیر میں امام رازی رح نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک پھوپھی زاد بھائی تھا ‘ جو اگرچہ ایمان تو نہیں لایا تھا مگر اکثر آپ ﷺ کے ساتھ رہتا اور آپ ﷺ سے تعاون بھی کرتا تھا۔ اس کے اس طرح کے رویے سے امید تھی کہ ایک دن وہ ایمان بھی لے آئے گا۔ ایک دفعہ کسی محفل میں سرداران قریش نے معجزات کے بارے میں آپ ﷺ سے بہت بحث و تکرار کی کہ آپ نبی ہیں تو ابھی معجزہ دکھائیں ‘ یہ نہیں تو وہ دکھا دیں ‘ ایسے نہیں تو ویسے کر کے دکھا دیں ! اس کی تفصیل سورة بنی اسرائیل میں بھی آئے گی مگر آپ ﷺ نے ان کی ہر بات پر یہی فرمایا کہ معجزہ دکھانا میرے اختیار میں نہیں ہے ‘ یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے ‘ جب اللہ تعالیٰ چاہے گا دکھا دے گا۔ اس پر انہوں نے گویا اپنے زعم میں میدان مار لیا اور آپ ﷺ پر آخری حجت قائم کردی۔ اس کے بعدجب حضور ﷺ وہاں سے اٹھے تو وہاں شور مچ گیا۔ ان لوگوں نے کیا کیا اور کس کس انداز میں باتیں نہیں کی ہوں گی اور اس کے عوام پر کیا اثرات ہوئے ہوں گے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کے اس پھوپھی زاد بھائی نے کہا کہ آج تو گویا آپ کی قوم نے آپ پر حجت قائم کردی ہے ‘ اب میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ موضوع اس ماحول میں کس قدر اہمیت اختیار کر گیا تھا اور اس طرح کی صورت حال میں آپ ﷺ کس قدر دل گرفتہ ہوئے ہوں گے۔ اس کا کچھ نقشہ سورة الانعام آیت 35 میں اس طرح کھینچا گیا ہے : وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ ط اور اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ پر بہت شاق گزر رہا ہے ان کا اعراض تو اگر آپ میں طاقت ہے تو زمین میں کوئی سرنگ بنا لیجیے یا آسمان پر سیڑھی لگا لیجیے اور ان کے لیے کہیں سے کوئی نشانی لے آیئے ! ہم تو نہیں دکھائیں گے ! ۔ یہ پس منظر ہے ان حالات کا جس میں فرمایا جا رہا ہے کہ معجزات کے مطالبات میں آپ ﷺ ان کو بتائیں کہ معجزہ دکھانے یا نہ دکھانے کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے ‘ مجھے اس کا اختیار نہیں ہے۔ قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ مِنْ رَّبِّیْ ج ہٰذَا بَصَآءِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ میں آپ لوگوں کے سامنے جو پیش کر رہا ہوں ‘ یہ وہی کچھ ہے جو اللہ نے مجھ پر وحی کیا ہے اور میں خود بھی اسی کی پیروی کر رہا ہوں۔ اس سے بڑھ کر میں نے کبھی کوئی دعویٰ کیا ہی نہیں۔