Al-A'raaf • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَٰقَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَٰلَٰتِ رَبِّى وَنَصَحْتُ لَكُمْ ۖ فَكَيْفَ ءَاسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍۢ كَٰفِرِينَ ﴾
“And he turned away from them, and said: "O my people! Indeed, I delivered unto you my Sustainer's message and gave you good advice: how, then, could I mourn for people who have denied the truth?"”
آیت 93 فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَکُمْ ج فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ یعنی حضرت شعیب علیہ السلام نے امکانی حد تک اپنی قوم کو سمجھانے کی کوشش کی۔ پھر بھی اگر قوم نہیں مانی تو گویا ان لوگوں نے خود اپنی بربادی کو دعوت دی۔ اب ایسے لوگوں کی ہلاکت پر افسوس کرنے کا جواز بھی کیا ہے۔ لیکن حضرت شعیب علیہ السلام کے ان الفاظ سے واضح ہو رہا ہے کہ آپ علیہ السلام کو اپنی قوم کے انجام پر شدید رنج و غم اور صدمہ تھا اور ایسے موقع پر ایسے الفاظ کہنا اپنے دل کی ڈھارس بندھانے کا ایک انداز ہے۔ بہر حال حقیقت یہ ہے کہ نبی اپنی قوم اور بنی نوع انسان کے لیے بہت شفیق ‘ مہربان اور ہمدرد ہوتا ہے اور اپنی قوم پر عذاب آنے پر اسے بہت زیادہ صدمہ ہوتا ہے۔