🕋 تفسير سورة المعارج
(Al-Maarij) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ
📘 آیت 1 ‘ 2{ سَاَلَ سَآئِلٌم بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ - لِّلْکٰفِرِیْنَ لَـیْسَ لَہٗ دَافِعٌ۔ } ”مانگا ایک مانگنے والے نے ایک ایسا عذاب جو واقع ہونے والا ہو ‘ کافروں کے لیے ‘ جس کو کوئی ٹال نہ سکے گا۔“ یہاں سَاَلَ سَآئِلٌسے کون مراد ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ میری رائے بہت پہلے سے یہ تھی کہ یہ عذاب طلب کرنے والے خود حضور ﷺ ہیں ‘ لیکن مجھے اپنی رائے پر اطمینان اس وقت ہوا جب مجھے معلوم ہوا کہ شاہ عبدالقادر دہلوی رح کی رائے بھی یہی ہے۔ عام مفسرین میں سے بہت کم لوگ شاہ صاحب رح کی اس رائے سے متفق ہیں کہ اس آیت میں حضور ﷺ کی خواہش یا دعا کا ذکر ہے۔ اس آیت کو سمجھنے کے لیے دراصل اس دور کا نقشہ ذہن میں لانا ضروری ہے جب حضور ﷺ پر ہر طرف سے طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور مکہ کی گلیوں میں آپ ﷺ کو شاعر ‘ مجنون ‘ ساحر اور کذاب جیسے ناموں سے پکارا جارہا تھا معاذ اللہ۔ اعلانِ نبوت کے بعد تین سال تک تو یوں سمجھئے کہ پورے شہر کی مخالفت کا نشانہ صرف حضور ﷺ کی ذات تھی۔ مشرکین کا خیال تھا کہ اگر وہ آپ ﷺ کی قوت ارادی اور ہمت توڑنے یا کسی بھی طریقے سے آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے موقف سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ تحریک خود بخود ختم ہوجائے گی۔ چناچہ اس دور میں عام اہل ایمان کو نظرانداز کر کے صرف آپ ﷺ کی ذات کو نشانے پر رکھا گیا تھا۔ اس دوران اگرچہ آپ ﷺ کو کوئی جسمانی اذیت تو نہ پہنچائی گئی لیکن باقاعدہ ایک منظم مہم کے تحت آپ ﷺ کے خلاف ذہنی ‘ نفسیاتی اور جذباتی تشدد کی انتہا کردی گئی۔ ان لوگوں کی اس مذموم مہم کی وجہ سے حضور ﷺ مسلسل ایک کرب اور تکلیف کی کیفیت میں تھے۔ اس کا اندازہ ان الفاظ اور جملوں سے بھی ہوتا ہے جو اس دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں آپ ﷺ کی تسلی کے لیے جگہ جگہ آئے ہیں۔ بہرحال حضور ﷺ بھی تو آخر انسان تھے۔ مسلسل شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرتے ہوئے ردّعمل کے طور پر آپ ﷺ کے دل میں ایسی خواہش کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا کہ اب ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجانا چاہیے۔ چناچہ ان آیات میں آپ ﷺ کی اسی خواہش یا دعا کا ذکر ہے۔ اس حوالے سے یہاں یہ نکتہ بھی مدنظر رہے کہ اس سورت کا سورة نوح کے ساتھ جوڑے کا تعلق ہے اور سورة نوح میں بھی حضرت نوح علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لیے سخت عذاب مانگا تھا۔ گویا ان دونوں سورتوں کے اس مضمون کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق میں یہ مناسبت بھی بہت اہم ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام پہلے رسول اور حضور ﷺ آخری رسول ہیں۔ 1
وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا
📘 آیت 6 ‘ 7{ اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا - وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا۔ } ”یہ لوگ تو اس عذاب کو دور سمجھ رہے ہیں ‘ اور ہم اسے نہایت قریب دیکھ رہے ہیں۔“ ظاہر ہے انسان تو صرف اپنے سامنے کی چیز کو ہی دیکھ سکتا ہے ‘ مستقبل میں جھانکنا تو اس کے بس میں نہیں ہے۔ اسی لیے مستقبل کی چیزیں یا خبریں اسے عام طور پر دور محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے تو مستقبل وغیرہ کچھ نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس سے غائب ہے۔ وہ تو ہرچیز کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ رہا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایک شخص صرف اسی شہر یا مقام کو دیکھ سکتا ہے جو اس کے سامنے ہے جبکہ اس سے اگلا شہر مستقبل میں ہونے کی وجہ سے اس کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے وہ ان دونوں شہروں کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ سکتا ہے۔ بقول آئن سٹائن every thing is relative کہ دنیا کی ہرچیز کسی دوسری چیز سے متعلق و مشروط ہے۔ چناچہ کسی بھی چیز یا صورت حال کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھ کر کوئی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔ دنیا میں ہمارے اعتبار سے بھی قریب اور بعید relative ہیں ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی شے بھی بعید نہیں ‘ ہرچیز اس کے سامنے ہے۔ ماضی ‘ حال اور مستقبل آنِ واحد میں اس کے سامنے موجود ہیں۔
يُبَصَّرُونَهُمْ ۚ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ
📘 آیات 1 1 تا 14{ یُّــبَصَّرُوْنَہُمْ ط } ”وہ سب انہیں دکھائے جائیں گے۔“ وہاں مشکل میں پھنسے ہوئے ہر شخص کو اس کے دوست احباب ‘ والدین ‘ بیوی بچے غرض اس کے سب پیارے دکھا بھی دیے جائیں گے تاکہ اس کی حسرت میں مزید اضافہ ہو۔ { یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَـوْ یَـفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍم بِبَنِیْہِ - وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ - وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُـئْوِیْہِ - وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًالا ثُمَّ یُنْجِیْہِ۔ } ”اس روز مجرم چاہے گا کہ کاش وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو ‘ اور اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو ‘ اور اپنے کنبے کو جو اسے پناہ دیتا تھا ‘ اور روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو ‘ پھر یہ فدیہ اس کو بچا لے !“ یہ اس کیفیت کی ایک جھلک ہے جس کے بارے میں ہمارے ہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس روز نفسانفسی کا عالم ہوگا۔ ہر شخص کو اپنی فکر ہوگی اور وہ چاہے گا کہ خواہ اس کے بیوی بچوں اور عزیز و اقارب سمیت سب کو عذاب میں جھونک دیا جائے لیکن اسے چھوڑ دیا جائے۔ اس کیفیت کا بالکل ایسا ہی نقشہ سورة عبس کی ان آیات میں بھی دکھایا گیا ہے : { یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ رض وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ - وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ - لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۔ } ”اس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے ‘ اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے ‘ اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔ اس دن ان میں سے ہر انسان کی ایسی حالت ہوگی جو اسے دوسروں سے بیخبر کر دے گی“۔ احادیث میں آتا ہے کہ اس روز اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر - بھی نَفْسِیْ نَفْسِیْ پکار رہے ہوں گے۔
وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ
📘 آیات 1 1 تا 14{ یُّــبَصَّرُوْنَہُمْ ط } ”وہ سب انہیں دکھائے جائیں گے۔“ وہاں مشکل میں پھنسے ہوئے ہر شخص کو اس کے دوست احباب ‘ والدین ‘ بیوی بچے غرض اس کے سب پیارے دکھا بھی دیے جائیں گے تاکہ اس کی حسرت میں مزید اضافہ ہو۔ { یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَـوْ یَـفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍم بِبَنِیْہِ - وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ - وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُـئْوِیْہِ - وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًالا ثُمَّ یُنْجِیْہِ۔ } ”اس روز مجرم چاہے گا کہ کاش وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو ‘ اور اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو ‘ اور اپنے کنبے کو جو اسے پناہ دیتا تھا ‘ اور روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو ‘ پھر یہ فدیہ اس کو بچا لے !“ یہ اس کیفیت کی ایک جھلک ہے جس کے بارے میں ہمارے ہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس روز نفسانفسی کا عالم ہوگا۔ ہر شخص کو اپنی فکر ہوگی اور وہ چاہے گا کہ خواہ اس کے بیوی بچوں اور عزیز و اقارب سمیت سب کو عذاب میں جھونک دیا جائے لیکن اسے چھوڑ دیا جائے۔ اس کیفیت کا بالکل ایسا ہی نقشہ سورة عبس کی ان آیات میں بھی دکھایا گیا ہے : { یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ رض وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ - وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ - لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۔ } ”اس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے ‘ اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے ‘ اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔ اس دن ان میں سے ہر انسان کی ایسی حالت ہوگی جو اسے دوسروں سے بیخبر کر دے گی“۔ احادیث میں آتا ہے کہ اس روز اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر - بھی نَفْسِیْ نَفْسِیْ پکار رہے ہوں گے۔
وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْوِيهِ
📘 آیات 1 1 تا 14{ یُّــبَصَّرُوْنَہُمْ ط } ”وہ سب انہیں دکھائے جائیں گے۔“ وہاں مشکل میں پھنسے ہوئے ہر شخص کو اس کے دوست احباب ‘ والدین ‘ بیوی بچے غرض اس کے سب پیارے دکھا بھی دیے جائیں گے تاکہ اس کی حسرت میں مزید اضافہ ہو۔ { یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَـوْ یَـفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍم بِبَنِیْہِ - وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ - وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُـئْوِیْہِ - وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًالا ثُمَّ یُنْجِیْہِ۔ } ”اس روز مجرم چاہے گا کہ کاش وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو ‘ اور اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو ‘ اور اپنے کنبے کو جو اسے پناہ دیتا تھا ‘ اور روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو ‘ پھر یہ فدیہ اس کو بچا لے !“ یہ اس کیفیت کی ایک جھلک ہے جس کے بارے میں ہمارے ہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس روز نفسانفسی کا عالم ہوگا۔ ہر شخص کو اپنی فکر ہوگی اور وہ چاہے گا کہ خواہ اس کے بیوی بچوں اور عزیز و اقارب سمیت سب کو عذاب میں جھونک دیا جائے لیکن اسے چھوڑ دیا جائے۔ اس کیفیت کا بالکل ایسا ہی نقشہ سورة عبس کی ان آیات میں بھی دکھایا گیا ہے : { یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ رض وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ - وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ - لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۔ } ”اس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے ‘ اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے ‘ اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔ اس دن ان میں سے ہر انسان کی ایسی حالت ہوگی جو اسے دوسروں سے بیخبر کر دے گی“۔ احادیث میں آتا ہے کہ اس روز اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر - بھی نَفْسِیْ نَفْسِیْ پکار رہے ہوں گے۔
وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنْجِيهِ
📘 آیات 1 1 تا 14{ یُّــبَصَّرُوْنَہُمْ ط } ”وہ سب انہیں دکھائے جائیں گے۔“ وہاں مشکل میں پھنسے ہوئے ہر شخص کو اس کے دوست احباب ‘ والدین ‘ بیوی بچے غرض اس کے سب پیارے دکھا بھی دیے جائیں گے تاکہ اس کی حسرت میں مزید اضافہ ہو۔ { یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَـوْ یَـفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍم بِبَنِیْہِ - وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ - وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُـئْوِیْہِ - وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًالا ثُمَّ یُنْجِیْہِ۔ } ”اس روز مجرم چاہے گا کہ کاش وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو ‘ اور اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو ‘ اور اپنے کنبے کو جو اسے پناہ دیتا تھا ‘ اور روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو ‘ پھر یہ فدیہ اس کو بچا لے !“ یہ اس کیفیت کی ایک جھلک ہے جس کے بارے میں ہمارے ہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس روز نفسانفسی کا عالم ہوگا۔ ہر شخص کو اپنی فکر ہوگی اور وہ چاہے گا کہ خواہ اس کے بیوی بچوں اور عزیز و اقارب سمیت سب کو عذاب میں جھونک دیا جائے لیکن اسے چھوڑ دیا جائے۔ اس کیفیت کا بالکل ایسا ہی نقشہ سورة عبس کی ان آیات میں بھی دکھایا گیا ہے : { یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ رض وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ - وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ - لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۔ } ”اس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے ‘ اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے ‘ اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔ اس دن ان میں سے ہر انسان کی ایسی حالت ہوگی جو اسے دوسروں سے بیخبر کر دے گی“۔ احادیث میں آتا ہے کہ اس روز اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر - بھی نَفْسِیْ نَفْسِیْ پکار رہے ہوں گے۔
كَلَّا ۖ إِنَّهَا لَظَىٰ
📘 آیت 15{ کَلَّاط اِنَّہَا لَظٰی۔ } ”ہرگز نہیں ! اب تو یہ بھڑکتی ہوئی آگ ہی ہے۔“ آج تم سے نہ تو کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا ‘ اور نہ ہی کوئی تمہاری مدد کو آئے گا۔ آج جہنم کی اس شعلہ فشاں آگ کا سامنا تمہیں خود ہی کرنا ہوگا۔ جیسا کہ سورة مریم کی اس آیت میں واضح کیا گیا ہے : { وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا۔ } ”اور قیامت کے دن سب کے سب آنے والے ہیں اس کے پاس اکیلے اکیلے۔“
نَزَّاعَةً لِلشَّوَىٰ
📘 آیت 16{ نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی۔ } ”جو کلیجوں کو کھینچ لے گی۔“ شدت کے اعتبار سے جہنم کی آگ کا دنیا کی آگ سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ سورة الہمزہ میں جہنم کی آگ کی ایک خصوصیت یہ بتائی گئی ہے : { تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ۔ } کہ وہ براہ راست دلوں میں جلن پیدا کرے گی۔ آج کل اس کیفیت کو ultra violet rays کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ان شعاعوں کی حرارت کھال کے اندر پہنچ کر اپنا اثر دکھاتی ہے۔
تَدْعُو مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّىٰ
📘 جہنم کی آگ ہر اس شخص کو پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر شکارکرے گی جس نے حق سے اعراض کیا تھا اور اللہ کے کلام کو پس ِپشت ڈال دیا تھا۔ دین کی دعوت اور نبی کریم ﷺ کے مشن کو کبھی لائق اعتناء نہیں سمجھا تھا۔
وَجَمَعَ فَأَوْعَىٰ
📘 آیت 18{ وَجَمَعَ فَاَوْعٰی۔ } ”اور جو مال جمع کرتا رہا پھر اسے سینت سینت کر رکھتا رہا۔“ جس نے اپنی ساری زندگی مال جمع کرنے اور اسے سنبھال سنبھال کر رکھنے میں بتادی تھی۔
۞ إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا
📘 آیت 19{ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا۔ } ”یقینا انسان پیدا کیا گیا ہے تھڑدلا۔“ یہ انسان کی فطری اور جبلی کمزوری ہے کہ وہ تھڑدلا اور بےصبرا ہے۔ قرآن مجید میں انسان کی کئی اور کمزوریوں کا ذکر بھی آیا ہے ‘ مثلاً : { وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا۔ } النساء کہ انسان فطری طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ سورة الاحزاب کی آیت 72 میں انسان کو ظَلُوْمًا جَھُوْلًا قرار دیا گیا ہے ‘ جبکہ سورة الانبیاء کی آیت 37 میں انسان کی طبعی عجلت پسندی کا ذکر آیا ہے : { خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍط }۔ ظاہر ہے ایک انسان جسم اور روح سے مرکب ہے۔ انسان کے جسم کا تعلق عالم خلق سے ہے ‘ جبکہ انسانی روح کا تعلق عالم امر سے ہے : { وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِط قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ } بنی اسراء یل : 85 ”اور اے نبی ﷺ ! یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں روح کے بارے میں۔ آپ فرما دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے“۔ چناچہ مذکورہ سب کمزوریوں کا تعلق انسان کی جسمانی خلقت سے ہے۔ جہاں تک انسانی وجود کے اصل حصے یعنی اس کی روح کا تعلق ہے ‘ بنیادی طور پر اس کا مقام بہت بلند ہے اور اس میں ایسی کوئی کمزوری نہیں ہے۔ انسان کی تخلیق کے اس پہلو کا ذکر سورة التین کی اس آیت میں آیا ہے : { لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ } ”بیشک ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا“۔ لیکن افسوس کہ ہم انسانوں کی اکثریت اپنی روح سے بیگانہ ہوچکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اللہ کی یاد سے غفلت ہے۔ جو انسان اللہ تعالیٰ سے غافل ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر اسے خود اپنی ذات روح سے غافل کردیتا ہے۔ سورة الحشر کی آیت 19 میں اہل ایمان کو اس حوالے سے یوں متنبہ کیا گیا ہے : { وَلَا تَـکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹہُمْ اَنْفُسَہُمْط } ”اے مسلمانو دیکھنا ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا۔“
لِلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ
📘 آیت 1 ‘ 2{ سَاَلَ سَآئِلٌم بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ - لِّلْکٰفِرِیْنَ لَـیْسَ لَہٗ دَافِعٌ۔ } ”مانگا ایک مانگنے والے نے ایک ایسا عذاب جو واقع ہونے والا ہو ‘ کافروں کے لیے ‘ جس کو کوئی ٹال نہ سکے گا۔“ یہاں سَاَلَ سَآئِلٌسے کون مراد ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ میری رائے بہت پہلے سے یہ تھی کہ یہ عذاب طلب کرنے والے خود حضور ﷺ ہیں ‘ لیکن مجھے اپنی رائے پر اطمینان اس وقت ہوا جب مجھے معلوم ہوا کہ شاہ عبدالقادر دہلوی رح کی رائے بھی یہی ہے۔ عام مفسرین میں سے بہت کم لوگ شاہ صاحب رح کی اس رائے سے متفق ہیں کہ اس آیت میں حضور ﷺ کی خواہش یا دعا کا ذکر ہے۔ اس آیت کو سمجھنے کے لیے دراصل اس دور کا نقشہ ذہن میں لانا ضروری ہے جب حضور ﷺ پر ہر طرف سے طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور مکہ کی گلیوں میں آپ ﷺ کو شاعر ‘ مجنون ‘ ساحر اور کذاب جیسے ناموں سے پکارا جارہا تھا معاذ اللہ۔ اعلانِ نبوت کے بعد تین سال تک تو یوں سمجھئے کہ پورے شہر کی مخالفت کا نشانہ صرف حضور ﷺ کی ذات تھی۔ مشرکین کا خیال تھا کہ اگر وہ آپ ﷺ کی قوت ارادی اور ہمت توڑنے یا کسی بھی طریقے سے آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے موقف سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ تحریک خود بخود ختم ہوجائے گی۔ چناچہ اس دور میں عام اہل ایمان کو نظرانداز کر کے صرف آپ ﷺ کی ذات کو نشانے پر رکھا گیا تھا۔ اس دوران اگرچہ آپ ﷺ کو کوئی جسمانی اذیت تو نہ پہنچائی گئی لیکن باقاعدہ ایک منظم مہم کے تحت آپ ﷺ کے خلاف ذہنی ‘ نفسیاتی اور جذباتی تشدد کی انتہا کردی گئی۔ ان لوگوں کی اس مذموم مہم کی وجہ سے حضور ﷺ مسلسل ایک کرب اور تکلیف کی کیفیت میں تھے۔ اس کا اندازہ ان الفاظ اور جملوں سے بھی ہوتا ہے جو اس دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں آپ ﷺ کی تسلی کے لیے جگہ جگہ آئے ہیں۔ بہرحال حضور ﷺ بھی تو آخر انسان تھے۔ مسلسل شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرتے ہوئے ردّعمل کے طور پر آپ ﷺ کے دل میں ایسی خواہش کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا کہ اب ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجانا چاہیے۔ چناچہ ان آیات میں آپ ﷺ کی اسی خواہش یا دعا کا ذکر ہے۔ اس حوالے سے یہاں یہ نکتہ بھی مدنظر رہے کہ اس سورت کا سورة نوح کے ساتھ جوڑے کا تعلق ہے اور سورة نوح میں بھی حضرت نوح علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لیے سخت عذاب مانگا تھا۔ گویا ان دونوں سورتوں کے اس مضمون کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق میں یہ مناسبت بھی بہت اہم ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام پہلے رسول اور حضور ﷺ آخری رسول ہیں۔ 1
إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا
📘 اگلی دو آیات ہَلُوْعًاکی وضاحت پر مشتمل ہیں :آیت 20{ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا۔ } ”جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے۔“ جب کوئی انسان اپنی روح سے بیگانہ ہوجاتا ہے تو وہ نرا حیوان بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسے حیوان نما انسان کو جب کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ صبر کرنے کی بجائے فوراً چیخنا چلانا شروع کردیتا ہے اور جزع فزع کرنے لگتا ہے۔
وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا
📘 آیت 21{ وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا۔ } ”اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت بخیل بن جاتا ہے۔“ جب اسے کشادگی حاصل ہوتی ہے تو سب کچھ سمیٹ کر اپنے ہی پاس رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب اگلی آیات میں ان انسانی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے راہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ اپنے مضمون کے اعتبار سے ان آیات آیت 22 تا 35 کا سورة المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات کے ساتھ خصوصی تعلق ہے۔ قرآن مجید کے یہ دو مقامات نہ صرف باہم مشابہ ہیں بلکہ ”اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضَہٗ بَعْضًا“ کے اصول کے مطابق ایک مقام کی بعض آیات دوسرے مقام کی بعض آیات کی وضاحت بھی کرتی ہیں۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیجیے کہ ہمارے ”مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب“ کے تیسرے حصے کا پہلا سبق ان ہی دو مقامات کی آیات سورۃ المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات اور زیر مطالعہ سورة کی آیت 22 سے آیت 35 تک چودہ آیات پر مشتمل ہے۔ ان آیات میں دراصل بندئہ مومن کی سیرت و کردار کے ان اوصاف کی فہرست دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مطلوب اور پسندیدہ ہیں۔ گویا یہ اوصاف وہ اینٹیں ہیں جنہیں کام میں لا کر ایک بندئہ مومن کو اپنی سیرت کی عمارت تعمیر کرنا ہے۔ اگر یہ اینٹیں کچی ہوں گی تو ان سے بنائی گئی عمارت کمزور اور بودی ہونے کے باعث کفر و الحاد کے سیلاب کا سامنا نہیں کرسکے گی۔ چناچہ سیل باطل کی بلاخیزیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان ”اینٹوں“ کو خوب پختہ کر کے اپنی سیرت کی عمارت استوار کریں۔ بقول اکبر الٰہ آبادی : ؎تو آگ میں جل اور خاک میں مل ‘ جب خشت بنے تب کام چلے ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ ‘ تعمیر نہ کر ! بہرحال گزشتہ آیات میں جن انسانی کمزوریوں کا ذکر ہے ‘ عمومی طور پر انسان ان میں مبتلا ہو کر ان کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ پیدائشی کمزوریاں ناقابل تغیر و تبدل نہیں ‘ بلکہ انسان ان سے نجات پاسکتا ہے۔ چناچہ مندرجہ ذیل اوصاف کے حامل لوگ ان سے مستثنیٰ ہیں :
إِلَّا الْمُصَلِّينَ
📘 آیت 22 { اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ۔ } ”سوائے نمازیوں کے۔“ ان کمزوریوں اور خامیوں سے محفوظ رکھنے والی ایک چیز نماز ہے۔ گویا نماز تعمیر سیرت کی بنیاد کا پہلا پتھر ہے۔ لیکن صرف وہ نماز جو خاص اہتمام سے مداومت کے ساتھ ادا کی جاتی ہو۔ چناچہ مذکورہ استثناء کے اہل صرف وہی نمازی ہوں گے :
الَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ
📘 آیت 23{ الَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ دَآئِمُوْنَ۔ } ”جو اپنی نمازوں پر مداومت کرتے ہیں۔“ یعنی وہ لوگ جو اپنے روز مرہ معمولات میں نماز کو اوّلین ترجیح دیتے ہیں اور کبھی اس میں کوتاہی نہیں کرتے۔ چناچہ ایسے ”نمازی“ اس وصف کے مصداق نہیں بن سکتے جو ”فارغ وقت“ میں تو نماز ادا کرلیتے ہیں لیکن جب کوئی اور مصروفیت ہو تو انہیں نماز کا خیال تک نہیں آتا ‘ اور نہ ہی انہیں نماز کے ضائع ہوجانے کا دکھ ہوتا ہے۔ اس آیت کے مشابہ سورة المومنون میں یہ آیت ہے : { الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْْ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوْنَ۔ } ”وہ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔“
وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ
📘 آیت 24 ‘ 25{ وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ - لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ۔ } ”اور وہ جن کے اموال میں معین حق ہے ‘ مانگنے والے کا اور محروم کا۔“ ایسے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ جو کچھ انہوں نے کمایا ہے یا جو کچھ بھی انہیں مل گیا ہے وہ سب ان کا ہے ‘ بلکہ وہ اپنے اموال میں سے ایک معین حصہ معاشرے کے ان محروم اور نادار افراد کے لیے مختص کیے رکھتے ہیں جو اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ دراصل اللہ تعالیٰ آزمائش کے لیے بعض لوگوں کے حصے کا کچھ رزق بعض دوسرے لوگوں کے رزق میں شامل کردیتا ہے۔ چناچہ متمول افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے اموال میں سے مساکین و فقراء کا حصہ الگ کر کے ”حق بہ حق دار رسید“ کے اصول کے تحت خود ان تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ یاد رہے سورة المومنون میں اس آیت کے مقابل یہ آیت ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰـعِلُوْنَ۔ } ”اور وہ جو ہر دم اپنے تزکیے کی طرف متوجہ رہنے والے ہیں“۔ ان دونوں آیات پر غور کرنے سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ زکوٰۃ غرباء و مساکین کا حق ادا کردینے سے نہ صرف بقیہ مال پاک ہوجاتا ہے بلکہ یہ انفاق انسان کے تزکیہ باطن کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس نکتے کی وضاحت سورة الحدید کی آیت 17 اور 18 کے ضمن میں بھی کی جا چکی ہے۔ دراصل مال کی محبت جب کسی دل میں گھر جاتی ہے تو یوں سمجھ لیجیے کہ اس دل میں گندگی کے انبار لگ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل کی صفائی یعنی تزکیہ باطن کا موثر ترین طریقہ یہی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے مال کی محبت کو دل سے نکالا جائے۔ لیکن اس کے برعکس اگر کوئی شخص اپنے مال کو تو سینت سینت کر رکھتا ہے اور محض مراقبوں کے بل پر اپنے باطن اور نفس کا ”تزکیہ“ چاہتا ہے وہ گویا سراب کے پیچھے بھاگ بھاگ کر خود کو ہلکان کر رہا ہے۔
لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ
📘 آیت 24 ‘ 25{ وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ - لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ۔ } ”اور وہ جن کے اموال میں معین حق ہے ‘ مانگنے والے کا اور محروم کا۔“ ایسے لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ جو کچھ انہوں نے کمایا ہے یا جو کچھ بھی انہیں مل گیا ہے وہ سب ان کا ہے ‘ بلکہ وہ اپنے اموال میں سے ایک معین حصہ معاشرے کے ان محروم اور نادار افراد کے لیے مختص کیے رکھتے ہیں جو اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ دراصل اللہ تعالیٰ آزمائش کے لیے بعض لوگوں کے حصے کا کچھ رزق بعض دوسرے لوگوں کے رزق میں شامل کردیتا ہے۔ چناچہ متمول افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے اموال میں سے مساکین و فقراء کا حصہ الگ کر کے ”حق بہ حق دار رسید“ کے اصول کے تحت خود ان تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ یاد رہے سورة المومنون میں اس آیت کے مقابل یہ آیت ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰـعِلُوْنَ۔ } ”اور وہ جو ہر دم اپنے تزکیے کی طرف متوجہ رہنے والے ہیں“۔ ان دونوں آیات پر غور کرنے سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ زکوٰۃ غرباء و مساکین کا حق ادا کردینے سے نہ صرف بقیہ مال پاک ہوجاتا ہے بلکہ یہ انفاق انسان کے تزکیہ باطن کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس نکتے کی وضاحت سورة الحدید کی آیت 17 اور 18 کے ضمن میں بھی کی جا چکی ہے۔ دراصل مال کی محبت جب کسی دل میں گھر جاتی ہے تو یوں سمجھ لیجیے کہ اس دل میں گندگی کے انبار لگ جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل کی صفائی یعنی تزکیہ باطن کا موثر ترین طریقہ یہی ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے مال کی محبت کو دل سے نکالا جائے۔ لیکن اس کے برعکس اگر کوئی شخص اپنے مال کو تو سینت سینت کر رکھتا ہے اور محض مراقبوں کے بل پر اپنے باطن اور نفس کا ”تزکیہ“ چاہتا ہے وہ گویا سراب کے پیچھے بھاگ بھاگ کر خود کو ہلکان کر رہا ہے۔
وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ
📘 آیت 26{ وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۔ } ”اور جو فیصلے کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔“ زیر مطالعہ آیات کی سورة المومنون کی ابتدائی آیات کے ساتھ مناسبت کے حوالے سے اس آیت کا تعلق سورة المومنون کی اس آیت سے ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ } ”اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں“۔ گویا زیر مطالعہ آیت سورة المومنون کی مذکورہ آیت کی وضاحت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے لغویات سے اعراض کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ وہ قیامت اور جزا و سزا کے دن پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے تو اس زندگی کا ایک ایک لمحہ امر کبھی نہ مرنے والا ‘ دائمی ہے۔ بظاہر تو انسان کی یہ زندگی فانی finite ہے ‘ لیکن درحقیقت بالقوہ potentially یہ دائمی infinite ہے۔ اس لیے کہ اس فانی زندگی کے اعمال کا نتیجہ آخرت کی دوامی زندگی میں نکلے گا۔ دنیا میں انسان اچھے برے جو اعمال بھی کمائے گا ‘ ان اعمال کے اثرات و نتائج آخرت کی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوں گے۔ چناچہ آخرت کی دوامی زندگی کے لیے جو پونجی انسان کو درکار ہے وہ تو دنیوی زندگی کے ”اوقات“ میں ہی کمائی جاسکتی ہے۔ سورة العصر کی پہلی آیت میں تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کی قسم کے پردے میں بھی دراصل یہی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ گویا انسان کا اصل سرمایہ اس کی مہلت ِعمر یعنی زندگی کے وہ قیمتی لمحات ہیں جو تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں ؎غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی !
وَالَّذِينَ هُمْ مِنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ
📘 آیت 26{ وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۔ } ”اور جو فیصلے کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔“ زیر مطالعہ آیات کی سورة المومنون کی ابتدائی آیات کے ساتھ مناسبت کے حوالے سے اس آیت کا تعلق سورة المومنون کی اس آیت سے ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ } ”اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں“۔ گویا زیر مطالعہ آیت سورة المومنون کی مذکورہ آیت کی وضاحت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے لغویات سے اعراض کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ وہ قیامت اور جزا و سزا کے دن پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے تو اس زندگی کا ایک ایک لمحہ امر کبھی نہ مرنے والا ‘ دائمی ہے۔ بظاہر تو انسان کی یہ زندگی فانی finite ہے ‘ لیکن درحقیقت بالقوہ potentially یہ دائمی infinite ہے۔ اس لیے کہ اس فانی زندگی کے اعمال کا نتیجہ آخرت کی دوامی زندگی میں نکلے گا۔ دنیا میں انسان اچھے برے جو اعمال بھی کمائے گا ‘ ان اعمال کے اثرات و نتائج آخرت کی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوں گے۔ چناچہ آخرت کی دوامی زندگی کے لیے جو پونجی انسان کو درکار ہے وہ تو دنیوی زندگی کے ”اوقات“ میں ہی کمائی جاسکتی ہے۔ سورة العصر کی پہلی آیت میں تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کی قسم کے پردے میں بھی دراصل یہی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ گویا انسان کا اصل سرمایہ اس کی مہلت ِعمر یعنی زندگی کے وہ قیمتی لمحات ہیں جو تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں ؎غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی !
إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونٍ
📘 آیت 26{ وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۔ } ”اور جو فیصلے کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔“ زیر مطالعہ آیات کی سورة المومنون کی ابتدائی آیات کے ساتھ مناسبت کے حوالے سے اس آیت کا تعلق سورة المومنون کی اس آیت سے ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ } ”اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں“۔ گویا زیر مطالعہ آیت سورة المومنون کی مذکورہ آیت کی وضاحت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے لغویات سے اعراض کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ وہ قیامت اور جزا و سزا کے دن پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے تو اس زندگی کا ایک ایک لمحہ امر کبھی نہ مرنے والا ‘ دائمی ہے۔ بظاہر تو انسان کی یہ زندگی فانی finite ہے ‘ لیکن درحقیقت بالقوہ potentially یہ دائمی infinite ہے۔ اس لیے کہ اس فانی زندگی کے اعمال کا نتیجہ آخرت کی دوامی زندگی میں نکلے گا۔ دنیا میں انسان اچھے برے جو اعمال بھی کمائے گا ‘ ان اعمال کے اثرات و نتائج آخرت کی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوں گے۔ چناچہ آخرت کی دوامی زندگی کے لیے جو پونجی انسان کو درکار ہے وہ تو دنیوی زندگی کے ”اوقات“ میں ہی کمائی جاسکتی ہے۔ سورة العصر کی پہلی آیت میں تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کی قسم کے پردے میں بھی دراصل یہی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ گویا انسان کا اصل سرمایہ اس کی مہلت ِعمر یعنی زندگی کے وہ قیمتی لمحات ہیں جو تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں ؎غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی !
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ
📘 آیت 26{ وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۔ } ”اور جو فیصلے کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔“ زیر مطالعہ آیات کی سورة المومنون کی ابتدائی آیات کے ساتھ مناسبت کے حوالے سے اس آیت کا تعلق سورة المومنون کی اس آیت سے ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ } ”اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں“۔ گویا زیر مطالعہ آیت سورة المومنون کی مذکورہ آیت کی وضاحت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے لغویات سے اعراض کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ وہ قیامت اور جزا و سزا کے دن پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے تو اس زندگی کا ایک ایک لمحہ امر کبھی نہ مرنے والا ‘ دائمی ہے۔ بظاہر تو انسان کی یہ زندگی فانی finite ہے ‘ لیکن درحقیقت بالقوہ potentially یہ دائمی infinite ہے۔ اس لیے کہ اس فانی زندگی کے اعمال کا نتیجہ آخرت کی دوامی زندگی میں نکلے گا۔ دنیا میں انسان اچھے برے جو اعمال بھی کمائے گا ‘ ان اعمال کے اثرات و نتائج آخرت کی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوں گے۔ چناچہ آخرت کی دوامی زندگی کے لیے جو پونجی انسان کو درکار ہے وہ تو دنیوی زندگی کے ”اوقات“ میں ہی کمائی جاسکتی ہے۔ سورة العصر کی پہلی آیت میں تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کی قسم کے پردے میں بھی دراصل یہی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ گویا انسان کا اصل سرمایہ اس کی مہلت ِعمر یعنی زندگی کے وہ قیمتی لمحات ہیں جو تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں ؎غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی !
مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ
📘 آیت 1 ‘ 2{ سَاَلَ سَآئِلٌم بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ - لِّلْکٰفِرِیْنَ لَـیْسَ لَہٗ دَافِعٌ۔ } ”مانگا ایک مانگنے والے نے ایک ایسا عذاب جو واقع ہونے والا ہو ‘ کافروں کے لیے ‘ جس کو کوئی ٹال نہ سکے گا۔“ یہاں سَاَلَ سَآئِلٌسے کون مراد ہے ؟ اس بارے میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ میری رائے بہت پہلے سے یہ تھی کہ یہ عذاب طلب کرنے والے خود حضور ﷺ ہیں ‘ لیکن مجھے اپنی رائے پر اطمینان اس وقت ہوا جب مجھے معلوم ہوا کہ شاہ عبدالقادر دہلوی رح کی رائے بھی یہی ہے۔ عام مفسرین میں سے بہت کم لوگ شاہ صاحب رح کی اس رائے سے متفق ہیں کہ اس آیت میں حضور ﷺ کی خواہش یا دعا کا ذکر ہے۔ اس آیت کو سمجھنے کے لیے دراصل اس دور کا نقشہ ذہن میں لانا ضروری ہے جب حضور ﷺ پر ہر طرف سے طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی اور مکہ کی گلیوں میں آپ ﷺ کو شاعر ‘ مجنون ‘ ساحر اور کذاب جیسے ناموں سے پکارا جارہا تھا معاذ اللہ۔ اعلانِ نبوت کے بعد تین سال تک تو یوں سمجھئے کہ پورے شہر کی مخالفت کا نشانہ صرف حضور ﷺ کی ذات تھی۔ مشرکین کا خیال تھا کہ اگر وہ آپ ﷺ کی قوت ارادی اور ہمت توڑنے یا کسی بھی طریقے سے آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے موقف سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ تحریک خود بخود ختم ہوجائے گی۔ چناچہ اس دور میں عام اہل ایمان کو نظرانداز کر کے صرف آپ ﷺ کی ذات کو نشانے پر رکھا گیا تھا۔ اس دوران اگرچہ آپ ﷺ کو کوئی جسمانی اذیت تو نہ پہنچائی گئی لیکن باقاعدہ ایک منظم مہم کے تحت آپ ﷺ کے خلاف ذہنی ‘ نفسیاتی اور جذباتی تشدد کی انتہا کردی گئی۔ ان لوگوں کی اس مذموم مہم کی وجہ سے حضور ﷺ مسلسل ایک کرب اور تکلیف کی کیفیت میں تھے۔ اس کا اندازہ ان الفاظ اور جملوں سے بھی ہوتا ہے جو اس دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں آپ ﷺ کی تسلی کے لیے جگہ جگہ آئے ہیں۔ بہرحال حضور ﷺ بھی تو آخر انسان تھے۔ مسلسل شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرتے ہوئے ردّعمل کے طور پر آپ ﷺ کے دل میں ایسی خواہش کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا کہ اب ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آجانا چاہیے۔ چناچہ ان آیات میں آپ ﷺ کی اسی خواہش یا دعا کا ذکر ہے۔ اس حوالے سے یہاں یہ نکتہ بھی مدنظر رہے کہ اس سورت کا سورة نوح کے ساتھ جوڑے کا تعلق ہے اور سورة نوح میں بھی حضرت نوح علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لیے سخت عذاب مانگا تھا۔ گویا ان دونوں سورتوں کے اس مضمون کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق میں یہ مناسبت بھی بہت اہم ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام پہلے رسول اور حضور ﷺ آخری رسول ہیں۔ 1
إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ
📘 آیت 26{ وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۔ } ”اور جو فیصلے کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔“ زیر مطالعہ آیات کی سورة المومنون کی ابتدائی آیات کے ساتھ مناسبت کے حوالے سے اس آیت کا تعلق سورة المومنون کی اس آیت سے ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ } ”اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں“۔ گویا زیر مطالعہ آیت سورة المومنون کی مذکورہ آیت کی وضاحت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے لغویات سے اعراض کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ وہ قیامت اور جزا و سزا کے دن پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے تو اس زندگی کا ایک ایک لمحہ امر کبھی نہ مرنے والا ‘ دائمی ہے۔ بظاہر تو انسان کی یہ زندگی فانی finite ہے ‘ لیکن درحقیقت بالقوہ potentially یہ دائمی infinite ہے۔ اس لیے کہ اس فانی زندگی کے اعمال کا نتیجہ آخرت کی دوامی زندگی میں نکلے گا۔ دنیا میں انسان اچھے برے جو اعمال بھی کمائے گا ‘ ان اعمال کے اثرات و نتائج آخرت کی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوں گے۔ چناچہ آخرت کی دوامی زندگی کے لیے جو پونجی انسان کو درکار ہے وہ تو دنیوی زندگی کے ”اوقات“ میں ہی کمائی جاسکتی ہے۔ سورة العصر کی پہلی آیت میں تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کی قسم کے پردے میں بھی دراصل یہی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ گویا انسان کا اصل سرمایہ اس کی مہلت ِعمر یعنی زندگی کے وہ قیمتی لمحات ہیں جو تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں ؎غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی !
فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ
📘 آیت 26{ وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۔ } ”اور جو فیصلے کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔“ زیر مطالعہ آیات کی سورة المومنون کی ابتدائی آیات کے ساتھ مناسبت کے حوالے سے اس آیت کا تعلق سورة المومنون کی اس آیت سے ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔ } ”اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں“۔ گویا زیر مطالعہ آیت سورة المومنون کی مذکورہ آیت کی وضاحت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے لغویات سے اعراض کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ وہ قیامت اور جزا و سزا کے دن پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے تو اس زندگی کا ایک ایک لمحہ امر کبھی نہ مرنے والا ‘ دائمی ہے۔ بظاہر تو انسان کی یہ زندگی فانی finite ہے ‘ لیکن درحقیقت بالقوہ potentially یہ دائمی infinite ہے۔ اس لیے کہ اس فانی زندگی کے اعمال کا نتیجہ آخرت کی دوامی زندگی میں نکلے گا۔ دنیا میں انسان اچھے برے جو اعمال بھی کمائے گا ‘ ان اعمال کے اثرات و نتائج آخرت کی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوں گے۔ چناچہ آخرت کی دوامی زندگی کے لیے جو پونجی انسان کو درکار ہے وہ تو دنیوی زندگی کے ”اوقات“ میں ہی کمائی جاسکتی ہے۔ سورة العصر کی پہلی آیت میں تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کی قسم کے پردے میں بھی دراصل یہی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ گویا انسان کا اصل سرمایہ اس کی مہلت ِعمر یعنی زندگی کے وہ قیمتی لمحات ہیں جو تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں ؎غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی !
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
📘 آیت 32{ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ۔ } ”اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس کرنے والے ہیں۔“ یہ چاروں آیات سورة المومنون میں بھی آیت 5 ‘ 6 ‘ 7 اور 8 کے طور پر جوں کی توں آئی ہیں۔ البتہ اگلی آیت میں اہل ایمان کی سیرت کی ایک اضافی صفت کا ذکر ہے جو سورة المومنون کی مذکورہ آیات میں بیان نہیں ہوئی :
وَالَّذِينَ هُمْ بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ
📘 آیت 33{ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِشَہٰدٰتِہِمْ قَآئِمُوْنَ۔ } ”اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں۔“ دراصل گواہی بھی ایک امانت ہے اور جو شخص غلط گواہی دیتا ہے یا گواہی کو چھپا لیتا ہے وہ امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ سورة البقرۃ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِط } آیت 140 ”اور کان کھول کر سن لو اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی تھی جسے اس نے چھپالیا ؟“ علمائے یہود کے پاس نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت کے بارے میں اللہ کی طرف سے گواہی تھی ‘ انہوں نے اس گواہی کو چھپا کر اللہ کی امانت میں خیانت کی۔ سورة البقرۃ کی اس آیت میں اسی گواہی کو چھپانے کا ذکر ہے۔
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ
📘 آیت 33{ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِشَہٰدٰتِہِمْ قَآئِمُوْنَ۔ } ”اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں۔“ دراصل گواہی بھی ایک امانت ہے اور جو شخص غلط گواہی دیتا ہے یا گواہی کو چھپا لیتا ہے وہ امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ سورة البقرۃ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِط } آیت 140 ”اور کان کھول کر سن لو اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی تھی جسے اس نے چھپالیا ؟“ علمائے یہود کے پاس نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت کے بارے میں اللہ کی طرف سے گواہی تھی ‘ انہوں نے اس گواہی کو چھپا کر اللہ کی امانت میں خیانت کی۔ سورة البقرۃ کی اس آیت میں اسی گواہی کو چھپانے کا ذکر ہے۔
أُولَٰئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُكْرَمُونَ
📘 آیت 33{ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِشَہٰدٰتِہِمْ قَآئِمُوْنَ۔ } ”اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں۔“ دراصل گواہی بھی ایک امانت ہے اور جو شخص غلط گواہی دیتا ہے یا گواہی کو چھپا لیتا ہے وہ امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ سورة البقرۃ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِط } آیت 140 ”اور کان کھول کر سن لو اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی تھی جسے اس نے چھپالیا ؟“ علمائے یہود کے پاس نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت کے بارے میں اللہ کی طرف سے گواہی تھی ‘ انہوں نے اس گواہی کو چھپا کر اللہ کی امانت میں خیانت کی۔ سورة البقرۃ کی اس آیت میں اسی گواہی کو چھپانے کا ذکر ہے۔
فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ
📘 آیت 33{ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِشَہٰدٰتِہِمْ قَآئِمُوْنَ۔ } ”اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں۔“ دراصل گواہی بھی ایک امانت ہے اور جو شخص غلط گواہی دیتا ہے یا گواہی کو چھپا لیتا ہے وہ امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ سورة البقرۃ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِط } آیت 140 ”اور کان کھول کر سن لو اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی تھی جسے اس نے چھپالیا ؟“ علمائے یہود کے پاس نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت کے بارے میں اللہ کی طرف سے گواہی تھی ‘ انہوں نے اس گواہی کو چھپا کر اللہ کی امانت میں خیانت کی۔ سورة البقرۃ کی اس آیت میں اسی گواہی کو چھپانے کا ذکر ہے۔
عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ
📘 آیت 37{ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِیْنَ۔ } ”دائیں اور بائیں سے غول در غول۔“ دراصل مشرکین کو ہر وقت یہ دھڑکا لگتا رہتا تھا کہ جس کسی نے بھی حضور ﷺ سے قرآن سن لیا وہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس لیے حضور ﷺ جب لوگوں کو قرآن سنانے کے لیے کہیں کھڑے ہوتے تو وہ ہر طرف سے دوڑیں لگا کر آپ ﷺ کے پاس پہنچ جاتے۔ ایسا دراصل وہ لوگوں کو حضور ﷺ کے گرد جمع ہونے سے روکنے کے لیے کرتے تھے ‘ تاکہ وہ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے قرآن نہ سن سکیں۔
أَيَطْمَعُ كُلُّ امْرِئٍ مِنْهُمْ أَنْ يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيمٍ
📘 آیت 37{ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِیْنَ۔ } ”دائیں اور بائیں سے غول در غول۔“ دراصل مشرکین کو ہر وقت یہ دھڑکا لگتا رہتا تھا کہ جس کسی نے بھی حضور ﷺ سے قرآن سن لیا وہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس لیے حضور ﷺ جب لوگوں کو قرآن سنانے کے لیے کہیں کھڑے ہوتے تو وہ ہر طرف سے دوڑیں لگا کر آپ ﷺ کے پاس پہنچ جاتے۔ ایسا دراصل وہ لوگوں کو حضور ﷺ کے گرد جمع ہونے سے روکنے کے لیے کرتے تھے ‘ تاکہ وہ آپ ﷺ کی زبان مبارک سے قرآن نہ سن سکیں۔
كَلَّا ۖ إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِمَّا يَعْلَمُونَ
📘 آیت 39{ کَلَّاطاِنَّا خَلَقْنٰـہُمْ مِّمَّا یَعْلَمُوْنَ۔ } ”ہرگز نہیں ! ہم نے ان کو پیدا کیا ہے اس چیز سے جس کو وہ جانتے ہیں۔“ یعنی ہر انسان جانتا ہے کہ اس کی تخلیق گندے پانی کی ایک بوند سے ہوئی ہے۔
تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ
📘 آیت 4{ تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَـیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ۔ } ”چڑھتے ہیں فرشتے اور روح اس کی جانب ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے۔“ یہ آیت ہمارے لیے آیات متشابہات میں سے ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ اللہ تعالیٰ کے ”ذِی الْمَعَارِجِ“ ہونے کی وضاحت ہے کہ اس کی بارگاہِ بلند تک پہنچنے کے لیے فرشتوں اور جبریل علیہ السلام کو بھی پچاس ہزار سال کی مسافت کے برابر فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ پچاس ہزار برس کے دن سے یہاں قیامت کا دن مراد ہے جو کفار کے لیے تو بہت طویل اور سخت ہوگا ‘ البتہ اہل ایمان کو وہ دن ایسے محسوس ہوگا جیسے انہوں نے دن کا کچھ حصہ یا ایک فرض نماز ادا کرنے کے برابر وقت گزارا ہو۔ حضرت ابوسعید خدری رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس دن کے بارے میں پوچھا گیا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ اِنَّـہٗ لَیُخَفَّفُ عَلَی الْمُؤْمِنِ حَتّٰی یَـکُوْنَ اَھْوَنَ عَلَیْہِ مِنْ صَلَاۃٍ مَکْتُوْبَۃٍ یُصَلِّیْھَا فِی الدُّنْیَا ”اس ذات کی قسم جس کے دست ِ قدرت میں میری جان ہے ! یہ دن مومن کے لیے بہت مختصر کردیا جائے گا ‘ یہاں تک کہ جتنے وقت میں وہ دنیا میں ایک فرض نماز ادا کرتا ہے اس سے بھی اسے مختصر معلوم ہوگا۔“
فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ
📘 آیت 40{ فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ } ”تو نہیں ! قسم ہے مجھے مشرقوں اور مغربوں کے ربّ کی“ قرآن مجید میں صیغہ واحد کے طور پر تو مشرق اور مغرب کا ذکر بہت مرتبہ آیا ہے۔ سورة الرحمن کی آیت 17 میں رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِبھی ہے ‘ جبکہ آیت زیر مطالعہ میں دونوں سمتوں کے لیے جمع کے صیغے آئے ہیں۔ مشرق و مغرب سے متعلق ان تینوں صیغوں واحد ‘ تثنیہ اور جمع کی وضاحت سورة الرحمن کی آیت 17 کے تحت کی جا چکی ہے۔ { اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ۔ } ”یقینا ہم قادر ہیں۔“
عَلَىٰ أَنْ نُبَدِّلَ خَيْرًا مِنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ
📘 آیت 41{ عَلٰٓی اَنْ نُّـبَدِّلَ خَیْرًا مِّنْہُمْ لا } ”اس پر کہ ہم ان کو ہٹاکر ان سے بہتر لوگ لے آئیں“ یعنی ہم انہیں ختم کر کے ان کی جگہ کسی اور قوم کے افراد کو لے آئیں گے ‘ جو ان سے بہتر ہوں گے۔ جیسے قوم نوح کو ختم کر کے قوم عاد کو پیدا کیا گیا اور پھر قوم عاد کے بعد قوم ثمود کو عروج بخشا گیا۔ اس فقرے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ آخرت میں ہم انہیں جو جسم دیں گے وہ ان کے موجودہ جسموں سے بہتر ہوں گے۔ اس بارے میں سورة الواقعہ ‘ آیت 61 اور سورة الدھر ‘ آیت 28 میں تو یہ اشارہ ملتا ہے کہ آخرت میں انسانوں کو جو جسم دیے جائیں گے وہ ان کے دنیا والے جسموں جیسے ہوں گے ‘ لیکن زیر مطالعہ آیت کے مذکورہ مفہوم سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں کو آخرت میں دیے جانے والے جسم ان کے دنیا والے جسموں سے بہتر ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر تو وہ جسم ان کے دنیا والے جسموں جیسے ہی ہوں گے ‘ لیکن برداشت وغیرہ کے حوالے سے ان سے کہیں بڑھ کر ہوں گے۔ مثلاً جہنم کی آگ جو دنیا کی آگ سے کہیں زیادہ گرم اور شدید ہوگی جب انسانوں کو جلائے گی تو وہ جل کر راکھ نہیں بن جائیں گے ‘ بلکہ اس کی تپش کو برداشت کریں گے۔ اہل جہنم کے جسموں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوگی کہ ان کی کھالیں جل جانے کے بعد پھر سے اپنی اصل حالت پر آجائیں گی۔ بہرحال آخرت میں ان لوگوں کو جو جسم دیے جائیں گے وہ خصوصی طور پر آخرت کی سختیاں جھیلنے کے لیے بنائے جائیں گے۔ وہ سختیاں جو دنیا کی سختیوں سے کہیں بڑھ کر ہوں گی۔ { وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ۔ } ”اور اس معاملے میں ہم ہارے ہوئے نہیں ہیں۔“ ہم ان کے ساتھ جیسا چاہیں سلوک کریں ‘ وہ ہماری گرفت سے نکل نہیں سکیں گے۔
فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّىٰ يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ
📘 آیت 42{ فَذَرْہُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا } ”تو اے نبی ﷺ ! آپ چھوڑ دیجیے انہیں ‘ یہ لگے رہیں بےہودہ باتوں اور کھیل کود میں“ { حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَہُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ۔ } ”یہاں تک کہ یہ ملاقات کریں اپنے اس دن سے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔“ قبل ازیں سورة الطور ‘ آیت 45 میں بھی ہم یہی الفاظ { فَذَرْہُمْ حَتّٰی یُلٰقُوْا } پڑھ آئے ہیں۔ یہ اسلوب ابتدائی دور کی سورتوں میں عام ملتا ہے۔ اس میں ایک طرف حضور ﷺ کی دلجوئی اور تسلی کا پہلو ہے تو دوسری طرف مشرکین سے نفرت اور غصے کا اظہار بھی ہے۔
يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَىٰ نُصُبٍ يُوفِضُونَ
📘 آیت 43{ یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا کَاَنَّہُمْ اِلٰی نُصُبٍ یُّوْفِضُوْنَ۔ } ”جس دن وہ نکلیں گے اپنی قبروں سے دوڑتے ہوئے ‘ جیسے کہ وہ مقرر نشانوں کی طرف بھاگے جا رہے ہوں۔“ ”نُصُب“ سے مراد وہ نشان ہیں جو دوڑ کا مقابلہ کرنے کے لیے لگائے جاتے ہیں تاکہ ہر دوڑنے والا دوسرے سے پہلے مقرر نشان پر پہنچنے کی کوشش کرے۔
خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۚ ذَٰلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ
📘 آیت 44{ خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّــۃٌط } ”ان کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی ‘ ذلت ان پر چھائی ہوئی ہوگی۔“ { ذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ۔ } ”یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔“
فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيلًا
📘 آیت 5{ فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا۔ } ”تو آپ ﷺ بڑی خوبصورتی سے صبر کیجیے۔“ یہ ہے وہ اصل پیغام جو ان آیات کے ذریعے حضور ﷺ کو دینا مقصود تھا ‘ کہ ابھی تو سفر کا آغاز ہوا ہے ‘ آنے والا وقت اور بھی کٹھن ہوگا۔ لہٰذا آپ ﷺ اپنے راستے میں آنے والی ہر مشکل کا صبر اور استقامت کے ساتھ سامنا کریں۔ اس سے پہلے سورة القلم میں بھی آپ ﷺ کو ایسی ہی ہدایت کی گئی ہے : { فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَـکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ 7} آیت 48 ”تو آپ ﷺ انتظار کیجیے اپنے رب کے حکم کا ‘ اور دیکھئے ! آپ ﷺ اس مچھلی والے کی طرح نہ ہوجایئے گا !“
إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا
📘 آیت 6 ‘ 7{ اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا - وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا۔ } ”یہ لوگ تو اس عذاب کو دور سمجھ رہے ہیں ‘ اور ہم اسے نہایت قریب دیکھ رہے ہیں۔“ ظاہر ہے انسان تو صرف اپنے سامنے کی چیز کو ہی دیکھ سکتا ہے ‘ مستقبل میں جھانکنا تو اس کے بس میں نہیں ہے۔ اسی لیے مستقبل کی چیزیں یا خبریں اسے عام طور پر دور محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے تو مستقبل وغیرہ کچھ نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس سے غائب ہے۔ وہ تو ہرچیز کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ رہا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایک شخص صرف اسی شہر یا مقام کو دیکھ سکتا ہے جو اس کے سامنے ہے جبکہ اس سے اگلا شہر مستقبل میں ہونے کی وجہ سے اس کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے وہ ان دونوں شہروں کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ سکتا ہے۔ بقول آئن سٹائن every thing is relative کہ دنیا کی ہرچیز کسی دوسری چیز سے متعلق و مشروط ہے۔ چناچہ کسی بھی چیز یا صورت حال کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھ کر کوئی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔ دنیا میں ہمارے اعتبار سے بھی قریب اور بعید relative ہیں ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی شے بھی بعید نہیں ‘ ہرچیز اس کے سامنے ہے۔ ماضی ‘ حال اور مستقبل آنِ واحد میں اس کے سامنے موجود ہیں۔
وَنَرَاهُ قَرِيبًا
📘 آیت 6 ‘ 7{ اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا - وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا۔ } ”یہ لوگ تو اس عذاب کو دور سمجھ رہے ہیں ‘ اور ہم اسے نہایت قریب دیکھ رہے ہیں۔“ ظاہر ہے انسان تو صرف اپنے سامنے کی چیز کو ہی دیکھ سکتا ہے ‘ مستقبل میں جھانکنا تو اس کے بس میں نہیں ہے۔ اسی لیے مستقبل کی چیزیں یا خبریں اسے عام طور پر دور محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے تو مستقبل وغیرہ کچھ نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس سے غائب ہے۔ وہ تو ہرچیز کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ رہا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایک شخص صرف اسی شہر یا مقام کو دیکھ سکتا ہے جو اس کے سامنے ہے جبکہ اس سے اگلا شہر مستقبل میں ہونے کی وجہ سے اس کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے وہ ان دونوں شہروں کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ سکتا ہے۔ بقول آئن سٹائن every thing is relative کہ دنیا کی ہرچیز کسی دوسری چیز سے متعلق و مشروط ہے۔ چناچہ کسی بھی چیز یا صورت حال کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھ کر کوئی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔ دنیا میں ہمارے اعتبار سے بھی قریب اور بعید relative ہیں ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی شے بھی بعید نہیں ‘ ہرچیز اس کے سامنے ہے۔ ماضی ‘ حال اور مستقبل آنِ واحد میں اس کے سامنے موجود ہیں۔
يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاءُ كَالْمُهْلِ
📘 آیت 6 ‘ 7{ اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا - وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا۔ } ”یہ لوگ تو اس عذاب کو دور سمجھ رہے ہیں ‘ اور ہم اسے نہایت قریب دیکھ رہے ہیں۔“ ظاہر ہے انسان تو صرف اپنے سامنے کی چیز کو ہی دیکھ سکتا ہے ‘ مستقبل میں جھانکنا تو اس کے بس میں نہیں ہے۔ اسی لیے مستقبل کی چیزیں یا خبریں اسے عام طور پر دور محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے تو مستقبل وغیرہ کچھ نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس سے غائب ہے۔ وہ تو ہرچیز کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ رہا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایک شخص صرف اسی شہر یا مقام کو دیکھ سکتا ہے جو اس کے سامنے ہے جبکہ اس سے اگلا شہر مستقبل میں ہونے کی وجہ سے اس کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے وہ ان دونوں شہروں کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ سکتا ہے۔ بقول آئن سٹائن every thing is relative کہ دنیا کی ہرچیز کسی دوسری چیز سے متعلق و مشروط ہے۔ چناچہ کسی بھی چیز یا صورت حال کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھ کر کوئی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔ دنیا میں ہمارے اعتبار سے بھی قریب اور بعید relative ہیں ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی شے بھی بعید نہیں ‘ ہرچیز اس کے سامنے ہے۔ ماضی ‘ حال اور مستقبل آنِ واحد میں اس کے سامنے موجود ہیں۔
وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ
📘 آیت 6 ‘ 7{ اِنَّہُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا - وَّنَرٰٹہُ قَرِیْبًا۔ } ”یہ لوگ تو اس عذاب کو دور سمجھ رہے ہیں ‘ اور ہم اسے نہایت قریب دیکھ رہے ہیں۔“ ظاہر ہے انسان تو صرف اپنے سامنے کی چیز کو ہی دیکھ سکتا ہے ‘ مستقبل میں جھانکنا تو اس کے بس میں نہیں ہے۔ اسی لیے مستقبل کی چیزیں یا خبریں اسے عام طور پر دور محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے تو مستقبل وغیرہ کچھ نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس سے غائب ہے۔ وہ تو ہرچیز کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ رہا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ سڑک پر سفر کرتے ہوئے ایک شخص صرف اسی شہر یا مقام کو دیکھ سکتا ہے جو اس کے سامنے ہے جبکہ اس سے اگلا شہر مستقبل میں ہونے کی وجہ سے اس کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو شخص ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے وہ ان دونوں شہروں کو بیک وقت اپنے سامنے دیکھ سکتا ہے۔ بقول آئن سٹائن every thing is relative کہ دنیا کی ہرچیز کسی دوسری چیز سے متعلق و مشروط ہے۔ چناچہ کسی بھی چیز یا صورت حال کو صرف ایک ہی زاویے سے دیکھ کر کوئی رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔ دنیا میں ہمارے اعتبار سے بھی قریب اور بعید relative ہیں ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی شے بھی بعید نہیں ‘ ہرچیز اس کے سامنے ہے۔ ماضی ‘ حال اور مستقبل آنِ واحد میں اس کے سامنے موجود ہیں۔