slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة نوح

(Nuh) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 44{ خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّــۃٌط } ”ان کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی ‘ ذلت ان پر چھائی ہوئی ہوگی۔“ { ذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ۔ } ”یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔“

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا

📘 آیت 9{ ثُمَّ اِنِّیْٓ اَعْلَنْتُ لَہُمْ وَاَسْرَرْتُ لَہُمْ اِسْرَارًا۔ } ”پھر میں نے انہیں علانیہ دعوت بھی دی اور خفیہ طور پر بھی سمجھایا۔“ اَسَرَّ یُسِرُّ اِسْرَارًا کے معنی بھید ہیں چھپانا یا چپکے سے بیان کرنا۔ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو کھلم کھلا تبلیغ بھی کرتے اور لوگوں سے تنہائی میں انفرادی ملاقاتیں کر کے بھی ایک ایک کو سمجھاتے۔

يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا

📘 آیت 1 1{ یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا۔ } ”وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔“ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بن کر رہو گے تو وہ تمہاری دنیوی زندگی میں بھی تمہارے لیے آسانیاں پیدا کر دے گا اور تمہارے علاقے میں خوب بارشیں برسائے گا ‘ جس سے تمہارے رزق میں اضافہ ہوگا۔ ان الفاظ سے یوں لگتا ہے جیسے حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت کے بعد کسی دور میں اس قوم پر خشک سالی اور قحط کا عذاب آیا تھا۔ جیسے قوم فرعون پر قحط اور دوسرے عذاب بھیجے گئے تھے الاعراف : رکوع 16۔ یا جیسے حضور ﷺ کی بعثت کے بعد مکہ میں بہت سخت قحط پڑا تھا سورۃ الدخان : رکوع 1۔ ایسے چھوٹے چھوٹے عذاب دراصل ہر رسول کی بعثت کے بعد متعلقہ قوم کے لوگوں پر وقتاً فوقتاً اس لیے مسلط کیے جاتے تھے تاکہ وہ خواب غفلت سے جاگ جائیں اور اپنے رسول کی دعوت کو سنجیدگی سے سنیں۔

وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا

📘 آیت 1 1{ یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا۔ } ”وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔“ یعنی اگر تم اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بن کر رہو گے تو وہ تمہاری دنیوی زندگی میں بھی تمہارے لیے آسانیاں پیدا کر دے گا اور تمہارے علاقے میں خوب بارشیں برسائے گا ‘ جس سے تمہارے رزق میں اضافہ ہوگا۔ ان الفاظ سے یوں لگتا ہے جیسے حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت کے بعد کسی دور میں اس قوم پر خشک سالی اور قحط کا عذاب آیا تھا۔ جیسے قوم فرعون پر قحط اور دوسرے عذاب بھیجے گئے تھے الاعراف : رکوع 16۔ یا جیسے حضور ﷺ کی بعثت کے بعد مکہ میں بہت سخت قحط پڑا تھا سورۃ الدخان : رکوع 1۔ ایسے چھوٹے چھوٹے عذاب دراصل ہر رسول کی بعثت کے بعد متعلقہ قوم کے لوگوں پر وقتاً فوقتاً اس لیے مسلط کیے جاتے تھے تاکہ وہ خواب غفلت سے جاگ جائیں اور اپنے رسول کی دعوت کو سنجیدگی سے سنیں۔

مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا

📘 آیت 13{ مَا لَکُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًا۔ } ”تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت کے امیدوار نہیں ہو ؟“ اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عظمت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے ؟ اور دوسرا یہ کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی عظمت و سطوت سے خوف کیوں نہیں آتا ؟ فی الحال اللہ تعالیٰ تمہیں ڈھیل دے رہا ہے ‘ لیکن اس کی ڈھیل کی بھی ایک حد ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے : { اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ۔ } البروج کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کو پکڑنے پر آتا ہے تو اس کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے۔ تم ان سب باتوں کا خیال کیوں نہیں کرتے ہو ؟ آخرتم لوگ اس کی نافرمانیاں کرتے ہوئے اور اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے اس کے غصے اور اس کی گرفت سے بےخوف کیوں ہوگئے ہو ؟

وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا

📘 آیت 14{ وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا۔ } ”اور اس نے تمہیں پیدا کیا ہے درجہ بدرجہ۔“ اللہ تعالیٰ نے رحم مادر کے اندر تمہیں خلقت کے کئی مراحل سے گزار کر انسانی صورت میں ڈھالا ہے۔

أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا

📘 آیت 14{ وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا۔ } ”اور اس نے تمہیں پیدا کیا ہے درجہ بدرجہ۔“ اللہ تعالیٰ نے رحم مادر کے اندر تمہیں خلقت کے کئی مراحل سے گزار کر انسانی صورت میں ڈھالا ہے۔

وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا

📘 آیت 14{ وَقَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا۔ } ”اور اس نے تمہیں پیدا کیا ہے درجہ بدرجہ۔“ اللہ تعالیٰ نے رحم مادر کے اندر تمہیں خلقت کے کئی مراحل سے گزار کر انسانی صورت میں ڈھالا ہے۔

وَاللَّهُ أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا

📘 آیت 17{ وَاللّٰہُ اَنْبَتَـکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا۔ } ”اور اللہ نے تمہیں اگایا ہے زمین سے جیسے سبزہ اُگایا جاتا ہے۔“ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے۔ نہ صرف تمہارے جسم کے تمام اجزاء زمین سے لیے گئے ہیں بلکہ اس جسم کی پرورش اور بقا کے لیے تمہیں خوراک بھی اسی زمین سے مل رہی ہے۔ نظریہ ارتقاء evolution theory کے ماننے والے لوگ اس آیت کو اپنے حق میں دلیل کے طور پر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زمین سے اگانے کے مفہوم میں پہلے چھوٹے چھوٹے جانوروں کی تخلیق کے آغاز اور پھر رفتہ رفتہ اس مخلوق کے مختلف ارتقائی مراحل سے گزار کر انسانی نسل Homo sapiens تک پہنچنے کا اشارہ موجود ہے۔

ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا

📘 آیت 17{ وَاللّٰہُ اَنْبَتَـکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا۔ } ”اور اللہ نے تمہیں اگایا ہے زمین سے جیسے سبزہ اُگایا جاتا ہے۔“ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے۔ نہ صرف تمہارے جسم کے تمام اجزاء زمین سے لیے گئے ہیں بلکہ اس جسم کی پرورش اور بقا کے لیے تمہیں خوراک بھی اسی زمین سے مل رہی ہے۔ نظریہ ارتقاء evolution theory کے ماننے والے لوگ اس آیت کو اپنے حق میں دلیل کے طور پر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زمین سے اگانے کے مفہوم میں پہلے چھوٹے چھوٹے جانوروں کی تخلیق کے آغاز اور پھر رفتہ رفتہ اس مخلوق کے مختلف ارتقائی مراحل سے گزار کر انسانی نسل Homo sapiens تک پہنچنے کا اشارہ موجود ہے۔

وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا

📘 آیت 17{ وَاللّٰہُ اَنْبَتَـکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا۔ } ”اور اللہ نے تمہیں اگایا ہے زمین سے جیسے سبزہ اُگایا جاتا ہے۔“ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے۔ نہ صرف تمہارے جسم کے تمام اجزاء زمین سے لیے گئے ہیں بلکہ اس جسم کی پرورش اور بقا کے لیے تمہیں خوراک بھی اسی زمین سے مل رہی ہے۔ نظریہ ارتقاء evolution theory کے ماننے والے لوگ اس آیت کو اپنے حق میں دلیل کے طور پر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زمین سے اگانے کے مفہوم میں پہلے چھوٹے چھوٹے جانوروں کی تخلیق کے آغاز اور پھر رفتہ رفتہ اس مخلوق کے مختلف ارتقائی مراحل سے گزار کر انسانی نسل Homo sapiens تک پہنچنے کا اشارہ موجود ہے۔

قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ

📘 آیت 44{ خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّــۃٌط } ”ان کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی ‘ ذلت ان پر چھائی ہوئی ہوگی۔“ { ذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ۔ } ”یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔“

لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا

📘 آیت 20{ لِّـتَسْلُکُوْا مِنْہَا سُبُلًا فِجَاجًا۔ } ”تاکہ تم چلو پھرو اس میں کشادہ راستوں پر۔“ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی عرضداشت اور رودادِ الم پیش کرتے ہوئے آخر کار حضرت نوح علیہ السلام یوں فریادکناں ہوئے :

قَالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا

📘 آیت 21{ قَالَ نُوْحٌ رَّبِّ اِنَّـہُمْ عَصَوْنِیْ } ”نوح علیہ السلام نے کہا : پروردگار ! انہوں نے میری نافرمانی کی“ { وَاتَّـبَعُوْا مَنْ لَّمْ یَزِدْہُ مَالُـہٗ وَوَلَدُہٗٓ اِلَّا خَسَارًا۔ } ”اور انہوں نے ان لوگوں کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے ان کے لیے سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں بڑھایا۔“ پروردگار ! تو نے مجھے ان کی طرف رسول بناکر بھیجا تھا اور ان پر کسی پس و پیش کے بغیر میری اطاعت لازم تھی ‘ لیکن انہوں نے تو میری جی بھر کر نافرمانی کی اور اپنے ان سرداروں اور وڈیروں کی پیروی کرتے رہے جن کے مال و اولاد کی کثرت نے انہیں غرور وتکبر میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ لوگ میری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔

وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا

📘 آیت 22{ وَمَکَرُوْا مَکْرًا کُبَّارًا۔ } ”اور ان لوگوں نے ایک چال بھی چلی بہت بڑی چال۔“ یہ قوم نوح علیہ السلام کے بڑے بڑے سرداروں کی اس چال کا ذکر ہے جس کے تحت انہوں نے مذہبی اور نسلی عصبیت کا سہارا لے کر عوام کو حضرت نوح علیہ السلام کے خلاف بھڑکایا تھا۔ انہوں نے اپنے اسلاف میں سے بڑے بڑے اولیاء اللہ کے ُ بت بنا کر رکھے ہوئے تھے اور انہی بتوں کی وہ لوگ پوجا کرتے تھے۔ جب حضرت نوح علیہ السلام نے انہیں ان بتوں کو چھوڑنے اور ایک اللہ کو معبود ماننے کی دعوت دی تو قوم کے سرداروں کو آپ علیہ السلام کے خلاف یہ دلیل مل گئی کہ آپ علیہ السلام ان کے بزرگوں اور اولیاء اللہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ چناچہ اس ”مضبوط اور موثر“ دلیل کو بنیاد بنا کر انہوں نے اپنے عوام کو اس نعرے پر متحد کرلیا کہ اب جو ہو سو ہو ہم اپنے ان معبودوں کو نہیں چھوڑیں گے۔

وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا

📘 آیت 23{ وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ } ”اور انہوں نے کہا کہ تم اپنے ان معبودوں کو ہرگز چھوڑ نہ بیٹھنا۔“ اس سے ملتا جلتا نعرہ سردارانِ قریش نے بھی حضور ﷺ کے خلاف اپنے عوام کو سکھایا تھا : { وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُ۔ } صٓ ”اور چل پڑے ان کے سردار یہ کہتے ہوئے کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر ‘ یقینا اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔“ { وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًالا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا۔ } ”ہرگز مت چھوڑنا وَد کو ‘ سواع کو ‘ یغوث کو ‘ یعوق کو اور نسر کو۔“ یہ سب اس قوم کے بتوں کے نام ہیں اور ان میں سے بیشتر اولیاء اللہ کی شخصیات کے بت تھے۔ یَغُوْث کے تلفظ ّمیں ”غیاث“ یا ”غوث“ کی مشابہت سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اولیاء اللہ میں سے کسی ایسی شخصیت کا بت تھا جسے وہ لوگ اپنافریاد رس سمجھتے تھے۔ دراصل حضرت آدم اور حضرت نوح - کے درمیانی زمانے میں بہت سے انبیاء کرام علیہ السلام گزرے ہیں۔ حضرت شیث اور حضرت ادریس - اسی دور کے نبی ہیں۔ ظاہر ہے ان پیغمبروں کے پیروکاروں میں بہت سے نیک لوگ اور اولیاء اللہ بھی ہوں گے۔ چناچہ بعد کی نسلوں کے لوگوں نے عقیدت و احترام کے جذبے کے تحت ان اولیاء اللہ کی مورتیاں بنا لیں۔ شروع شروع میں وہ ان مورتیوں کو احتراماً سلام کرتے ہوں گے ‘ لیکن بعد میں رفتہ رفتہ ان کی باقاعدہ پوجا شروع کردی گئی۔ اسی طرح آج ہمارے ہاں بھی بعض لوگ اپنے گھروں میں اولیاء اللہ اور پیروں کی تصاویر بڑے اہتمام کے ساتھ آویزاں کرتے ہیں ‘ بلکہ ان تصویروں کے گلوں میں باقاعدہ ہار بھی ڈالے جاتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک صاحب کے گھر میں ایک تصویر آویزاں دیکھی جس میں خواجہ معین الدین اجمیری ‘ حضرت بختیار کا کی اور بابا فرید شکرگنج - تینوں بیک وقت جمع تھے اور تصویر پر ہار ڈالے گئے تھے۔ ایسی روایات جب نسل در نسل آگے بڑھتی ہیں تو تدریجاً بت پرستی کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ ظاہر ہے عقائد و نظریات میں بگاڑ ایک دم تو پیدا نہیں ہوتا بلکہ ملتان کی زبان میں اس عمل کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ”بندہ تھیندا تھیندا تھی ویندا اے“۔ بہرحال بعض اوقات انسان نظریاتی طور پر رفتہ رفتہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ اسے خود بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔

وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا ۖ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا

📘 آیت 24{ وَقَدْ اَضَلُّوْا کَثِیْرًاج وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا ضَلٰلًا۔ } ”اور انہوں نے تو بہتوں کو بہکا دیا ہے۔ اور اے اللہ ! اب ُ تو ان ظالموں کے لیے سوائے گمراہی کے اور کسی چیز میں اضافہ نہ فرما !“ حضرت نوح علیہ السلام کے ان الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مرحلے پر آپ علیہ السلام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ اب آپ علیہ السلام کی حمیت دینی کو اس ناہنجار قوم کا ایمان لانا بھی گوارا نہیں ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کناں ہیں کہ پروردگار ! اب تو ان گمراہوں کی گمراہی میں ہی اضافہ فرما۔۔۔۔ بالکل ایسی ہی کیفیت کی جھلک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا میں بھی نظر آتی ہے :{ وَقَالَ مُوْسٰی رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰ تَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاَہٗ زِیْنَۃً وَّاَمْوَالاً فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَالا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَج رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلاَ یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ۔ } یونس”اور موسیٰ علیہ السلام ٰ نے عرض کیا : اے ہمارے پروردگار ! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو سامانِ زیب وزینت اور اموال عطا کردیے ہیں دنیا کی زندگی میں۔ پروردگار ! اس لیے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کریں تیرے راستے سے ! اے ہمارے رب ! اب ان کے اموال کو برباد کر دے اور ان کے دلوں میں سختی پیدا کر دے کہ یہ ایمان نہ لائیں جب تک کہ یہ کھلم کھلا دیکھ نہ لیں عذاب ِالیم کو۔“

مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَارًا

📘 آیت 25{ مِمَّا خَطِیْٓئٰتِہِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًالا } ”اپنی خطائوں کی وجہ سے ہی وہ غرق کیے گئے اور داخل کردیے گئے آگ میں“ { فَلَمْ یَجِدُوْا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا۔ } ”تو نہ پایا انہوں نے اپنے لیے اللہ کے مقابل کوئی مددگار۔“ حضرت نوح علیہ السلام کی اس فریاد کا سخت ترین حصہ آگے آ رہا ہے :

وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا

📘 آیت 25{ مِمَّا خَطِیْٓئٰتِہِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًالا } ”اپنی خطائوں کی وجہ سے ہی وہ غرق کیے گئے اور داخل کردیے گئے آگ میں“ { فَلَمْ یَجِدُوْا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا۔ } ”تو نہ پایا انہوں نے اپنے لیے اللہ کے مقابل کوئی مددگار۔“ حضرت نوح علیہ السلام کی اس فریاد کا سخت ترین حصہ آگے آ رہا ہے :

إِنَّكَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا

📘 آیت 27{ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا۔ } ”اگر تو نے ان کو چھوڑ دیاتو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسلوں میں بھی اب فاجر اور کافر لوگوں کے سوا اور کوئی پیدا نہیں ہوگا۔“ ان لوگوں کی فطرتیں مسخ ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے ان کی آئندہ نسلوں سے بھی کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔ اس لیے ان کا نیست و نابود ہوجانا ہی بہتر ہے۔ انسانی تاریخ میں اللہ کے کسی بندے نے شاید ہی ایسی سخت دعا مانگی ہو۔ لیکن حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو برس تک جس طرح صبر و استقامت کے ساتھ اپنی قوم کی زیادتیوں کو برداشت کیا ‘ اس پس منظر میں آپ علیہ السلام کا یہ غصہ حق بجانب تھا۔

رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا

📘 آیت 28{ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا } ”پروردگار ! مغفرت فرما دے میری اور میرے والدین کی اور جو کوئی بھی میرے گھر میں داخل ہوجائے ایمان کے ساتھ اس کی بھی“ { وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ط } ”اور تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کی بھی مغفرت فرمادے “ یہ دعا اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اگلے اور پچھلے زمانوں کے تمام اہل ایمان شامل ہوگئے ہیں۔{ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَـبَارًا۔ } ”اور ان ظالموں کے لیے ُ تو اب کسی چیز میں اضافہ مت کر سوائے تباہی اور بربادی کے۔“ سورة المعارج اور سورة نوح کے مطالعے کے بعد یہ نکتہ بھی اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ اگر ”نظم قرآن“ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دونوں سورتوں کا مطالعہ جوڑے کی حیثیت سے کیا جائے تو نہ صرف سورة المعارج کی پہلی آیت کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے ‘ بلکہ سورة نوح کے نزول کا سبب اور حضرت نوح علیہ السلام کی مذکورہ دعا کا جواز بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔ بہرحال اس پہلو سے ان دونوں سورتوں پر غور کرنے سے یہ نکتہ خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ سورة المعارج کی ابتدائی آیت خود حضور ﷺ ہی سے متعلق ہے اور یہ بھی کہ سورة المعارج کی آیت 5 میں آپ ﷺ کو { فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا۔ } کی تلقین بھی اسی حوالے سے کی گئی ‘ بلکہ اس کے بعد ایک پوری سورت سورئہ نوح نازل کر کے آپ ﷺ کی تسلی کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کے حالات و مصائب کا نقشہ بھی دکھادیا گیا کہ آپ ﷺ کی دعوتی مہم کو شروع ہوئے تو ابھی چار پانچ سال ہی ہوئے ہیں ‘ آپ ﷺ ہمارے اس بندے کی ہمت اور استقامت کو بھی مدنظر رکھیں جو ایسے مشکل حالات کا سامنا ساڑھے نو سو سال تک کرتا رہا۔

أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ

📘 آیت 3{ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّـقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ۔ } ”کہ تم لوگ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو۔“ یہاں نبی علیہ السلام اور رسول علیہ السلام میں فرق کے حوالے سے یہ نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے اپنی اطاعت کا مطالبہ اللہ کے ”رسول“ کی حیثیت سے کیا تھا۔ کسی نبی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم لوگ میری اطاعت کرو۔ سورة یوسف علیہ السلام میں ہم حضرت یوسف علیہ السلام کے تفصیلی حالات پڑھ چکے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نبی تھے۔ آپ علیہ السلام نے مصر کے بادشاہ کو یہ نہیں کہا کہ میں نبی ہوں ‘ تم میری اطاعت کرو ‘ اور نہ ہی آپ علیہ السلام نے مصر کے لوگوں سے مخاطب ہو کر یوں کہا کہ مجھ پر ایمان لائو ورنہ تم پر اللہ کی طرف سے عذاب آجائے گا۔ بلکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے دور نبوت میں بادشاہ اپنی جگہ پر بادشاہ رہا۔ آپ علیہ السلام اس کی بادشاہی میں ایک بڑے عہدے پر کام بھی کرتے رہے اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے۔ گویا انبیاء کرام کی دعوت عمومی نوعیت کی تھی کہ تم لوگ اللہ کے نیک بندے بنو ‘ اللہ کا حق مانو ‘ وغیرہ۔ لیکن جب کسی نبی کو کسی قوم کی طرف کوئی خاص مشن دے کر بھیجا گیا تو وہ اللہ کے ”رسول علیہ السلام“ اور اللہ کے نمائندے بن کر اس قوم کی طرف گئے اور اسی حیثیت سے انہوں نے متعلقہ قوم سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کیا۔ ازروئے الفاظِ قرآنی : { وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِط } النساء : 64 ”ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے“۔ اس لحاظ سے رسول کی اطاعت دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے : { مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَج } النساء : 80 ”جس نے اطاعت کی رسول کی اس نے اطاعت کی اللہ کی۔“

يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ ۖ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 آیت 4{ یَغْفِرْ لَــکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ } ”اللہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے گا“ یہاں پر حرف مِنْ تبعیضیہ بہت معنی خیز ہے۔ یعنی سب کے سب گناہ معاف ہونے کی ضمانت نہیں ‘ البتہ کچھ گناہ ضرور معاف ہوجائیں گے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو جسے چاہے گا اور جب چاہے گا معاف کر دے گا ‘ لیکن حقوق العباد کے تنازعات کے حوالے سے وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس کے لیے روز محشر متعلقہ فریقوں کے درمیان باقاعدہ لین دین کا اہتمام کرایا جائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے اگر کسی کا حق غصب کیا ہوگا ‘ کسی کی عزت پر حملہ کیا ہوگا یا کسی بھی طریقے سے کسی پر ظلم کیا ہوگا تو ایسے ظالم کی نیکیوں کے ذریعے سے متعلقہ مظلوم کی تلافی کی جائے گی۔ اس لین دین میں اگر کسی ظالم کی نیکیاں کم پڑجائیں گی تو حساب برابر کرنے کے لیے اس کے ظلم کا شکار ہونے والے مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔ { وَیُؤَخِّرْکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی } ”اور تمہیں مہلت دے دے گا ایک وقت معین تک۔“ یعنی اگر تم لوگ اللہ کو معبود مانتے ہوئے اس کا تقویٰ اختیار کرو گے اور میرے احکام کی تعمیل کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ کچھ مدت کے لیے تمہیں بحیثیت قوم دنیا میں زندہ رہنے کی مزید مہلت عطا فرما دے گا۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مہلت بھی ایک وقت معین تک ہی ہوگی۔ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سخت اور اٹل ہیں۔ { اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآئَ لَا یُؤَخَّرُ 7 لَـوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ } ”اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آجائے گا تو اسے موخر نہیں کیا جاسکے گا۔ کاش کہ تمہیں معلوم ہوتا !“ جب کوئی قوم اپنے رسول کی دعوت کو ٹھکرا دیتی ہے اور اسے غور و فکر کرنے کے لیے جو مہلت دی گئی ہو وہ ختم ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق اس قوم کو نیست و نابود کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیتا ہے تو پھر کوئی طاقت اس فیصلے کو موخر نہیں کرسکتی۔ آئندہ آیات میں حضرت نوح علیہ السلام کے اندازِ دعوت کا پورا نقشہ نظر آتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے خود کو کس کس طرح سے ہلکان کیا۔ قوم کو دعوت و تبلیغ کرتے اور پیغامِ حق سناتے ہوئے نوصدیاں بیت گئیں لیکن قوم اس دعوت حق پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ جب آپ علیہ السلام کو ان کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض داشت پیش کی۔

قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا

📘 آیت 4{ یَغْفِرْ لَــکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ } ”اللہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے گا“ یہاں پر حرف مِنْ تبعیضیہ بہت معنی خیز ہے۔ یعنی سب کے سب گناہ معاف ہونے کی ضمانت نہیں ‘ البتہ کچھ گناہ ضرور معاف ہوجائیں گے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو جسے چاہے گا اور جب چاہے گا معاف کر دے گا ‘ لیکن حقوق العباد کے تنازعات کے حوالے سے وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس کے لیے روز محشر متعلقہ فریقوں کے درمیان باقاعدہ لین دین کا اہتمام کرایا جائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے اگر کسی کا حق غصب کیا ہوگا ‘ کسی کی عزت پر حملہ کیا ہوگا یا کسی بھی طریقے سے کسی پر ظلم کیا ہوگا تو ایسے ظالم کی نیکیوں کے ذریعے سے متعلقہ مظلوم کی تلافی کی جائے گی۔ اس لین دین میں اگر کسی ظالم کی نیکیاں کم پڑجائیں گی تو حساب برابر کرنے کے لیے اس کے ظلم کا شکار ہونے والے مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔ { وَیُؤَخِّرْکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی } ”اور تمہیں مہلت دے دے گا ایک وقت معین تک۔“ یعنی اگر تم لوگ اللہ کو معبود مانتے ہوئے اس کا تقویٰ اختیار کرو گے اور میرے احکام کی تعمیل کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ کچھ مدت کے لیے تمہیں بحیثیت قوم دنیا میں زندہ رہنے کی مزید مہلت عطا فرما دے گا۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مہلت بھی ایک وقت معین تک ہی ہوگی۔ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سخت اور اٹل ہیں۔ { اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآئَ لَا یُؤَخَّرُ 7 لَـوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ } ”اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آجائے گا تو اسے موخر نہیں کیا جاسکے گا۔ کاش کہ تمہیں معلوم ہوتا !“ جب کوئی قوم اپنے رسول کی دعوت کو ٹھکرا دیتی ہے اور اسے غور و فکر کرنے کے لیے جو مہلت دی گئی ہو وہ ختم ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق اس قوم کو نیست و نابود کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیتا ہے تو پھر کوئی طاقت اس فیصلے کو موخر نہیں کرسکتی۔ آئندہ آیات میں حضرت نوح علیہ السلام کے اندازِ دعوت کا پورا نقشہ نظر آتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے خود کو کس کس طرح سے ہلکان کیا۔ قوم کو دعوت و تبلیغ کرتے اور پیغامِ حق سناتے ہوئے نوصدیاں بیت گئیں لیکن قوم اس دعوت حق پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں ہوئی۔ جب آپ علیہ السلام کو ان کے ایمان لانے کی امید نہ رہی تو آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض داشت پیش کی۔

فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا

📘 آیت 6{ فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَآئِ یْٓ اِلَّا فِرَارًا۔ } ”لیکن میری اس دعوت نے ان میں کچھ اضافہ نہیں کیا سوائے فرار کے۔“ یعنی میری اس شب و روز کی دعوتی مساعی کے نتیجے میں ان کے گریز اور فرار ہی میں اضافہ ہوا۔ جتنا جتنا میں ان کو پکارتا گیا اتنے ہی زیادہ یہ دور بھاگتے گئے۔

وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا

📘 آیت 7{ وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَلَہُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَہُمْ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ } ”اور میں نے جب بھی انہیں پکارا تاکہ تو ان کی مغفرت فرما دے تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں“ { وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ } ”اور اپنے کپڑے بھی اپنے اوپر لپیٹ لیے“ { وَاَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا۔ } ”اور وہ ضد پر اَڑ گئے ‘ اور انہوں نے استکبار کیا بہت بڑا استکبار۔“ اَصَرَّ یُصِرُّ اِصْرَارًاکے معنی اپنی روش پر اَڑ جانے کے ہیں۔ کفر کی روش پر اَڑ جانے اور جم جانے کے علاوہ ان کا رویہ اپنے رسول علیہ السلام کے ساتھ از حد متکبرانہ تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم کیسے آپ کو اپنا پیشوا تسلیم کرلیں جبکہ نچلے درجے کے رذیل قسم کے لوگ آپ کے متبعین ہیں !۔۔۔۔ - اردو میں لفظ اصرار اسی معنی میں مستعمل ہے۔

ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا

📘 آیت 7{ وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَلَہُمْ جَعَلُوْٓا اَصَابِعَہُمْ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ } ”اور میں نے جب بھی انہیں پکارا تاکہ تو ان کی مغفرت فرما دے تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں“ { وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ } ”اور اپنے کپڑے بھی اپنے اوپر لپیٹ لیے“ { وَاَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا۔ } ”اور وہ ضد پر اَڑ گئے ‘ اور انہوں نے استکبار کیا بہت بڑا استکبار۔“ اَصَرَّ یُصِرُّ اِصْرَارًاکے معنی اپنی روش پر اَڑ جانے کے ہیں۔ کفر کی روش پر اَڑ جانے اور جم جانے کے علاوہ ان کا رویہ اپنے رسول علیہ السلام کے ساتھ از حد متکبرانہ تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم کیسے آپ کو اپنا پیشوا تسلیم کرلیں جبکہ نچلے درجے کے رذیل قسم کے لوگ آپ کے متبعین ہیں !۔۔۔۔ - اردو میں لفظ اصرار اسی معنی میں مستعمل ہے۔

ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا

📘 آیت 9{ ثُمَّ اِنِّیْٓ اَعْلَنْتُ لَہُمْ وَاَسْرَرْتُ لَہُمْ اِسْرَارًا۔ } ”پھر میں نے انہیں علانیہ دعوت بھی دی اور خفیہ طور پر بھی سمجھایا۔“ اَسَرَّ یُسِرُّ اِسْرَارًا کے معنی بھید ہیں چھپانا یا چپکے سے بیان کرنا۔ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو کھلم کھلا تبلیغ بھی کرتے اور لوگوں سے تنہائی میں انفرادی ملاقاتیں کر کے بھی ایک ایک کو سمجھاتے۔