Al-Jinn • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ قُلْ أُوحِىَ إِلَىَّ أَنَّهُ ٱسْتَمَعَ نَفَرٌۭ مِّنَ ٱلْجِنِّ فَقَالُوٓا۟ إِنَّا سَمِعْنَا قُرْءَانًا عَجَبًۭا ﴾
“SAY: "It has been revealed to me that some of the unseen beings gave ear [to this divine writ], and thereupon said [unto their fellow-beings]: "'Verily, we have heard a wondrous discourse,”
آیت 28{ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا } ”پروردگار ! مغفرت فرما دے میری اور میرے والدین کی اور جو کوئی بھی میرے گھر میں داخل ہوجائے ایمان کے ساتھ اس کی بھی“ { وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ط } ”اور تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کی بھی مغفرت فرمادے “ یہ دعا اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں اگلے اور پچھلے زمانوں کے تمام اہل ایمان شامل ہوگئے ہیں۔{ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَـبَارًا۔ } ”اور ان ظالموں کے لیے ُ تو اب کسی چیز میں اضافہ مت کر سوائے تباہی اور بربادی کے۔“ سورة المعارج اور سورة نوح کے مطالعے کے بعد یہ نکتہ بھی اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ اگر ”نظم قرآن“ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دونوں سورتوں کا مطالعہ جوڑے کی حیثیت سے کیا جائے تو نہ صرف سورة المعارج کی پہلی آیت کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے ‘ بلکہ سورة نوح کے نزول کا سبب اور حضرت نوح علیہ السلام کی مذکورہ دعا کا جواز بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔ بہرحال اس پہلو سے ان دونوں سورتوں پر غور کرنے سے یہ نکتہ خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ سورة المعارج کی ابتدائی آیت خود حضور ﷺ ہی سے متعلق ہے اور یہ بھی کہ سورة المعارج کی آیت 5 میں آپ ﷺ کو { فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا۔ } کی تلقین بھی اسی حوالے سے کی گئی ‘ بلکہ اس کے بعد ایک پوری سورت سورئہ نوح نازل کر کے آپ ﷺ کی تسلی کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کے حالات و مصائب کا نقشہ بھی دکھادیا گیا کہ آپ ﷺ کی دعوتی مہم کو شروع ہوئے تو ابھی چار پانچ سال ہی ہوئے ہیں ‘ آپ ﷺ ہمارے اس بندے کی ہمت اور استقامت کو بھی مدنظر رکھیں جو ایسے مشکل حالات کا سامنا ساڑھے نو سو سال تک کرتا رہا۔