Al-Jinn • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَأَنَّا لَا نَدْرِىٓ أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَن فِى ٱلْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًۭا ﴾
“"'And [now we have become aware] that we [created beings] may not know whether evil fortune is intended for [any of] those who live on earth, or whether it is their Sustainer’s will to endow them with consciousness of what is right:”
آیت 10{ وَّاَنَّا لَا نَدْرِیْٓ اَشَرٌّ اُرِیْدَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ } ”اور یہ کہ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے لیے کسی شر کا ارادہ کیا جا رہا ہے“ { اَمْ اَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا۔ } ”یا ان کے لیے ان کے رب نے کسی بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔“ جنات کی اس بات سے ایسے لگتا ہے جیسے وہ تورات کے عالم تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جب کسی قوم کی طرف کوئی رسول مبعوث ہوتا ہے تو اس کے دو امکانی نتائج میں سے ایک نتیجہ ضرور سامنے آتا ہے۔ یا تو متعلقہ قوم اپنے رسول پر ایمان لا کر ہدایت کے راستے پر چل پڑتی ہے یا اس کا انکار کر کے تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی قوم پر عذاب بھیجنا چاہتا ہے تو اس قوم میں رسول مبعوث کر کے اتمامِ حجت ضرور کرتا ہے ‘ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کی اس آیت میں واضح کیا گیا ہے : { وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَـبْعَثَ رَسُوْلًا۔ } ”اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ کسی رسول کو نہ بھیج دیں“۔ چناچہ آسمانوں پر غیر معمولی سخت حفاظتی انتظامات دیکھ کر جنات یہ تو سمجھ گئے کہ اہل زمین کے لیے وحی و رسالت کا سلسلہ پھر سے شروع ہوچکا ہے ‘ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس سلسلے کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا۔ کیا اللہ تعالیٰ کو اپنے اس فیصلے سے انسانوں کی بھلائی مطلوب ہے یا اس نے اہل زمین کو قوم نوح علیہ السلام ‘ قومِ ہود علیہ السلام اور قوم صالح علیہ السلام کی طرح ایک مرتبہ پھر تباہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ان پر عذاب بھیجنے سے پہلے رسول مبعوث کر کے وہ ان لوگوں پر اتمامِ حجت کرنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے نبوت و رسالت ِمحمدی ﷺ تو انسانیت کے حق میں سراسر خیر ہی خیر ہے ‘ لیکن ان جنات کو اس وقت تک اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔