slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة القيامة

(Al-Qiyama) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ

📘 آیت 1{ لَآ اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ } ”نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی۔“ لَا یہاں پر معترضین کے دلائل کی نفی کے لیے آیا ہے۔ مطلب یہ کہ تمہیں تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ناممکن نظرآ رہا ہے اور اس بنیاد پر تم لوگ وقوع قیامت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہو ‘ مگر مجھے اس کے وقوع کے بارے میں اس قدر یقین ہے کہ میں اس کی قسم کھارہا ہوں۔ موقف کے موکد اور موقر ّہونے کے اعتبار سے یہ آیت سورة التغابن کی اس آیت سے گہری مشابہت رکھتی ہے : { قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَـبَّـؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْط } آیت 7 ”اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجیے : کیوں نہیں ! مجھے میرے رب کی قسم ہے ‘ تم لازماً اٹھائے جائو گے ‘ پھر تمہیں لازماً جتا دیا جائے گا ان اعمال کے بارے میں جو تم نے کیے ہیں“۔ سورة التغابن کی اس آیت کا اسلوب اور انداز بہت پرزور ہے ‘ لیکن دیکھا جائے تو اس میں خارجی دلیل اور منطق کوئی بھی نہیں۔ البتہ ایک شخص اپنے موقف کے حق میں اپنی شخصیت اور اپنے یقین کو دلیل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ لیکن یہ شخصیت وہ ہے جس کے قول و کردار کی سچائی کو اپنے پرائے سب نے مثالی مانا ہے اور یہی اس قول کے سچا ہونے کی سب سے قوی دلیل ہے۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ کے معاملے میں بھی وقوع قیامت کے دعوے کی دلیل محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور آپ ﷺ کی سیرت ہے۔

يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّ

📘 آیت 9{ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۔ } ”اور سورج اور چاند یکجا کردیے جائیں گے۔“ اس وقت سورج چاند سمیت تمام اجرامِ فلکی کشش ثقل کے قانون کے تحت اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ جب یہ نظام ڈھیلا پڑے گا تو تمام ُ کرے ّآپس میں ٹکرا جائیں گے۔

كَلَّا لَا وَزَرَ

📘 آیت 9{ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۔ } ”اور سورج اور چاند یکجا کردیے جائیں گے۔“ اس وقت سورج چاند سمیت تمام اجرامِ فلکی کشش ثقل کے قانون کے تحت اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ جب یہ نظام ڈھیلا پڑے گا تو تمام ُ کرے ّآپس میں ٹکرا جائیں گے۔

إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمُسْتَقَرُّ

📘 آیت 9{ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۔ } ”اور سورج اور چاند یکجا کردیے جائیں گے۔“ اس وقت سورج چاند سمیت تمام اجرامِ فلکی کشش ثقل کے قانون کے تحت اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ جب یہ نظام ڈھیلا پڑے گا تو تمام ُ کرے ّآپس میں ٹکرا جائیں گے۔

يُنَبَّأُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ

📘 آیت 13{ یُـنَـبَّـؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَئِذٍم بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ۔ } ”جتلا دیا جائے گا انسان کو اس دن جو کچھ اس نے آگے بھیجا ہوگا اور جو کچھ پیچھے چھوڑا ہوگا۔“ تقدیم و تاخیر کے اس فلسفے کو یوں سمجھیں کہ ہمارے اچھے برے اعمال کے بدلے کا ایک حصہ تو ہماری زندگیوں میں ہی آخرت کے لیے ہمارے اعمال نامے میں جمع credit ہوتا رہتا ہے ‘ جبکہ ان اعمال کا ایک دوسراحصہ اچھے یا برے اثرات کی صورت میں اسی دنیا میں رہ جاتا ہے۔ یہ ”اثرات“ اس دنیا میں جب تک موجود رہتے ہیں ‘ ان کے بدلے میں بھی ثواب یا گناہ متعلقہ شخص کے اعمال نامے میں متواتر شامل ہوتا رہتا ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص کو واضح طور پر بتادیا جائے گا کہ تمہاری یہ نیکیاں یا بدیاں تو وہ ہیں جو تم نے براہ راست خود اپنے لیے آگے بھیجی تھیں اور یہ ثواب یا وبال وہ ہے جو تمہارے اعمال کے پیچھے رہ جانے والے اثرات کی وجہ سے تمہارے حساب میں جمع ہوتا رہا۔

بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ

📘 آیت 14{ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ۔ } ”بلکہ انسان تو اپنے نفس کے احوال پر خود ہی خوب بصیرت رکھتا ہے۔“ قیامت کے دن تو کسی کو بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ ہر انسان کو خود ہی معلوم ہوگا کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ دنیا سے وہ کیا کچھ لے کر آیا ہے اور یہ کہ وہ کیسے سلوک کا مستحق ہے۔

وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ

📘 آیت 15{ وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ۔ } ”اور چاہے وہ کتنے ہی بہانے پیش کرے۔“ ظاہر ہے دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی چرب زبان شخص خود ساختہ عذر پیش کر کے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ ایسا کرنے سے ممکن ہے وہ وقتی طور پر متعلقہ لوگوں کو مطمئن کرلے لیکن اس کا ضمیر اس کو مسلسل یاد دلاتا رہتا ہے کہ تم جھوٹے ہو۔ اب آئندہ آیات میں خطاب کا رخ حضور ﷺ کی طرف ہوگیا ہے اور ساتھ ہی کلام کا صوتی آہنگ بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ ان آیات کے آخر میں قُــرْاٰنَــہٗ ‘ بَیَانَہٗ جیسے الفاظ آرہے ہیں۔ جیسے کہ آغاز میں ذکر ہوا تھا ‘ یہ سورت اپنے اسلوب اور صوتی آہنگ کے اعتبار سے چھوٹے چھوٹے کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ہر حصے کی خوبصورتی اور انفرادیت آیات کے آخر میں آنے والے ہم آواز الفاظ کی وجہ سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ مثلاً ابتدائی آیات کا اختتام قِیَامَہ ‘ لَوَّامہ ‘ عِظَامَہ ‘ بَنَانَہ ‘ اَمَامَہ جیسے الفاظ پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد چند آیات کے آخر میں الْـبَصَر ‘ القَمَر ‘ المَفَر ‘ وَزَر ‘ الْمُسْتَقر جیسے الفاظ آئے۔ جبکہ گزشتہ دو آیات کے اختتامی الفاظ بصیرۃ ، معاذیرہ آپس میں ہم آواز ہیں۔ صوتی آہنگ اور اسلوب کی یہ تبدیلی سورت کی آئندہ آیات میں بھی مسلسل نظر آئے گی۔

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ

📘 آیت 16{ لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۔ } ”آپ اس قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیں۔“ حضور اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ جونہی حضرت جبرائیل علیہ السلام وحی لے کر آتے آپ ﷺ نئے کلام کو فوری طور پر یاد کرنے کی کوشش کرتے۔ اس پس منظر میں یہاں آپ ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اس ضمن میں آپ ﷺ فکر مند نہ ہوں :

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ

📘 آیت 17{ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۔ } ”اسے جمع کرنا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔“ یعنی آپ ﷺ خاطر جمع رکھیں ‘ قرآن مجید میں سے کوئی آیت یا کوئی لفظ آپ ﷺ بھولیں گے نہیں۔ اس پورے کلام کی حفاظت اور ترتیب ہمارے ذمہ ہے۔

فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ

📘 آیت 18{ فَاِذَا قَرَاْنٰــہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ۔ } ”پھر جب ہم اسے پڑھوا دیں تو آپ اس کی قراءت کی پیروی کیجیے۔“ اس میں ترتیب ِمصحف کی طرف اشارہ ہے ‘ یعنی وہ ترتیب جس کے مطابق قرآن مجید کتابی صورت میں مرتب کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے قرآن مجید کے نزول کی ترتیب اور تھی اور مصحف کی ترتیب اور ہے۔ لیکن اس حوالے سے یہ اہم نکتہ مدنظر رہنا چاہیے کہ ترتیب مصحف بھی توقیفی ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی طے ہوئی ہے ‘ اور یہ کہ ہر وحی کے ساتھ نئے کلام کی ترتیب کا حکم بھی آتا تھا۔ یعنی ہر وحی میں نازل ہونے والی سورت یا آیات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح کیا جاتا تھا کہ پہلے سے نازل شدہ قرآن کے اندر ان کی جگہ کون سی ہوگی۔

ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ

📘 آیت 19{ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ۔ } ”پھر ہمارے ہی ذمے ہے اس کو واضح کردینا بھی۔“ قرآن مجید کی تفسیر سے متعلق یہ بہت اہم وضاحت ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کے اصل پیغام کی تبیین و تفہیم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ عملی طور پر اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ قرآن حسب ضرورت خود ہی اپنے احکام کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ جیسے سورة النساء میں دو احکام کے بارے میں آیا ہے : یَسْتَفْتُوْنَکَ… آیت 127 اور آیت 176 کہ اے نبی ﷺ یہ لوگ آپ سے فلاں مسئلے کی وضاحت چاہتے ہیں ‘ تو انہیں بتائیں کہ اگر انہیں اس بات کی پوری طرح سمجھ نہیں آئی تو اللہ تعالیٰ اس معاملے کی مزید وضاحت کردیتا ہے۔ چناچہ قرآنی احکام کی تبیین و تشریح خود قرآن نے بھی کی ہے اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اہتمام زبان رسالت سے بھی کرایا ہے۔ اس کی ضرورت اور اہمیت قرآن میں یوں بیان کی گئی ہے : { وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَـیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ } النحل : 44 کہ اے نبی ﷺ ہم نے یہ ذکر آپ پر اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ اس کو واضح کردیں لوگوں کے لیے کہ ان پر کیا کچھ نازل ہوا ہے۔ یعنی اگر قرآن کے سمجھنے میں لوگوں کو کہیں کوئی ابہام یا اشکال محسوس ہو تو آپ ﷺ اس کی وضاحت کردیا کریں اور اگر انہیں کہیں کوئی حکم اجمال کے پردے میں لپٹا نظر آئے تو آپ ﷺ اس کی تفصیل بیان کردیا کریں۔۔۔۔ آئندہ آیات میں خطاب کا رخ اور کلام کا آہنگ ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو رہا ہے۔

وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ

📘 آیت 2{ وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ۔ } ”اور نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں نفس لوامہ کی۔“ نفس ِلوامہ ّکے لغوی معنی ہیں ملامت کرنے والا نفس۔ اس سے مراد انسان کا وہ نفس ہے جسے ہم عرف عام میں ضمیر conscience کہتے ہیں۔ اس آیت میں نفس لوامہ یا انسانی ضمیر کو قیام قیامت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ انسانی نفس لوامہ یا ضمیر ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی مسلمان ‘ کافر یا دہریہ انکار نہیں کرسکتا۔ ”میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے“ یا ”My conscience is biting me“ جیسے جملے دنیا بھر کے انسانوں کے ہاں بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ آخر سوچنے کی بات ہے کہ اگر آپ کوئی غلط یا برا کام کریں تو اندر سے کوئی چیز کیوں بار بار آپ کے دل و دماغ میں چبھن پیدا کرتی ہے ؟ اور بعض اوقات اس چبھن کے تسلسل و تکرار کی وجہ سے آپ کی نیند تک کیوں اُڑ جاتی ہے ؟ اگر کوئی نیکی نیکی نہیں اور کوئی برائی برائی نہیں تو برے کام پر آپ کے اندر کی یہ چبھن یا خلش آخر آپ کو کیوں تنگ کرتی ہے ؟ چناچہ نیکی اور بدی کے الگ الگ وجود کا سب سے بڑا اور آفاقی سطح پر مسلمہ ثبوت انسانی نفس کی ملامت یا ضمیر کی خلش ہے۔ اور اگر یہ حقیقت تسلیم کرلی جائے کہ نیکی نیکی ہے اور بدی بدی ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسانوں کے نیک اور برے اعمال کا حتمی اور قطعی نتیجہ نکلنا بھی ناگزیر ہے۔ دوسری طرف اس حوالے سے زمینی حقائق سب کے سامنے ہیں۔ یعنی دنیا میں ایسا کوئی حتمی اور قطعی نتیجہ نہ تو نکلتا ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ اس دلیل کی روشنی میں اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ہر انسان کو اس کے اچھے برے اعمال کی پوری پوری جزا یا سزا دینے کے لیے ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کا وجود میں لایا جانا ناگزیر ہے۔ چناچہ قیامت ‘ آخرت یا بعث بعد الموت کی سب سے بڑی دلیل خود انسان کے اندر موجود ہے ‘ اور وہ ہے انسان کا نفس لوامہ یا اس کا ضمیر۔

كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ

📘 آیت 19{ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ۔ } ”پھر ہمارے ہی ذمے ہے اس کو واضح کردینا بھی۔“ قرآن مجید کی تفسیر سے متعلق یہ بہت اہم وضاحت ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کے اصل پیغام کی تبیین و تفہیم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ عملی طور پر اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ قرآن حسب ضرورت خود ہی اپنے احکام کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ جیسے سورة النساء میں دو احکام کے بارے میں آیا ہے : یَسْتَفْتُوْنَکَ… آیت 127 اور آیت 176 کہ اے نبی ﷺ یہ لوگ آپ سے فلاں مسئلے کی وضاحت چاہتے ہیں ‘ تو انہیں بتائیں کہ اگر انہیں اس بات کی پوری طرح سمجھ نہیں آئی تو اللہ تعالیٰ اس معاملے کی مزید وضاحت کردیتا ہے۔ چناچہ قرآنی احکام کی تبیین و تشریح خود قرآن نے بھی کی ہے اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اہتمام زبان رسالت سے بھی کرایا ہے۔ اس کی ضرورت اور اہمیت قرآن میں یوں بیان کی گئی ہے : { وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَـیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ } النحل : 44 کہ اے نبی ﷺ ہم نے یہ ذکر آپ پر اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ اس کو واضح کردیں لوگوں کے لیے کہ ان پر کیا کچھ نازل ہوا ہے۔ یعنی اگر قرآن کے سمجھنے میں لوگوں کو کہیں کوئی ابہام یا اشکال محسوس ہو تو آپ ﷺ اس کی وضاحت کردیا کریں اور اگر انہیں کہیں کوئی حکم اجمال کے پردے میں لپٹا نظر آئے تو آپ ﷺ اس کی تفصیل بیان کردیا کریں۔۔۔۔ آئندہ آیات میں خطاب کا رخ اور کلام کا آہنگ ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو رہا ہے۔

وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ

📘 آیت 21{ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَ۔ } ”اور تم آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔“ یہاں خطاب کا رخ کفار کی طرف ہے۔ یعنی تمہارا اصل مرض ہی یہ ہے کہ تم لوگ ”حب ِعاجلہ“ میں مبتلاہو ‘ اپنی دنیا کی زندگی اور دنیا کے مال و اسباب سے محبت کرتے ہو اور اس کے مقابلے میں آخرت کو بالکل ہی نظر انداز کیے ہوئے ہو۔

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ

📘 آیت 22{ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ۔ } ”بہت سے چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے۔“ ان آیات میں اب میدانِ محشر میں موجود لوگوں کی کیفیت کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ اس نقشے کو دیکھنے سے یوں لگتا ہے کہ ہر انسان کو اپنے اعمال کے مطابق اپنے نتیجے کا پہلے سے ہی علم ہوگا۔ جیسے سکول میں اعلانِ نتائج کے موقع پر کچھ بچے پہلے سے مطمئن اور کچھ پہلے سے پریشان ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ہر بچہ اپنے بارے میں خوب جانتا ہے کہ اس نے امتحان میں کیا کچھ کیا تھا۔

إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ

📘 آیت 23{ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ۔ } ”اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔“ بعض مفسرین نے اس آیت سے یہ مفہوم مراد لیا ہے کہ وہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہوں گے۔ اس لیے کہ رویت ِ باری تعالیٰ میدانِ حشر میں نہیں ہوگی ‘ بلکہ اہل جنت ‘ جنت میں داخلے کے بعد جس سب سے بڑی نعمت سے سرشار ہوں گے وہ دیدارِ الٰہی ہوگی۔ لیکن کچھ علماء کا خیال ہے اور میری رائے بھی یہی ہے کہ اہل ایمان کو میدانِ محشر میں بھی کسی نہ کسی درجے میں رویت باری تعالیٰ سے مشرف کیا جائے گا۔ سورة المُطَفِّـفِیْن میں یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ آئے گا۔

وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ

📘 آیت 23{ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ۔ } ”اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔“ بعض مفسرین نے اس آیت سے یہ مفہوم مراد لیا ہے کہ وہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہوں گے۔ اس لیے کہ رویت ِ باری تعالیٰ میدانِ حشر میں نہیں ہوگی ‘ بلکہ اہل جنت ‘ جنت میں داخلے کے بعد جس سب سے بڑی نعمت سے سرشار ہوں گے وہ دیدارِ الٰہی ہوگی۔ لیکن کچھ علماء کا خیال ہے اور میری رائے بھی یہی ہے کہ اہل ایمان کو میدانِ محشر میں بھی کسی نہ کسی درجے میں رویت باری تعالیٰ سے مشرف کیا جائے گا۔ سورة المُطَفِّـفِیْن میں یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ آئے گا۔

تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ

📘 آیت 25{ تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ۔ } ”ان کو یقین ہوگا کہ اب ان کے ساتھ کمرتوڑ سلوک ہونے و الا ہے۔“ اس کے بعد اب قیامت صغریٰ یعنی انسان کی موت کے وقت کا نقشہ دکھایا جا رہا ہے۔ قیامت کبریٰ کا ذکر تو قبل ازیں ان آیات میں آچکا ہے : { فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ - وَخَسَفَ الْقَمَرُ H…}۔ لیکن انفرادی سطح پر تو ہر انسان کی موت ہی اس کی قیامت ہے۔ اسی لیے قیامت کبریٰ کے مقابلے میں ہر انسان کی موت کو اس کی ”قیامت صغریٰ“ کہا جاتا ہے۔ چناچہ ان آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر انسان کو اپنی ’ قیامت صغریٰ ‘ کا تصور اپنے ذہن میں مستحضر رکھنا چاہیے۔

كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ

📘 آیت 25{ تَظُنُّ اَنْ یُّفْعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ۔ } ”ان کو یقین ہوگا کہ اب ان کے ساتھ کمرتوڑ سلوک ہونے و الا ہے۔“ اس کے بعد اب قیامت صغریٰ یعنی انسان کی موت کے وقت کا نقشہ دکھایا جا رہا ہے۔ قیامت کبریٰ کا ذکر تو قبل ازیں ان آیات میں آچکا ہے : { فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ - وَخَسَفَ الْقَمَرُ H…}۔ لیکن انفرادی سطح پر تو ہر انسان کی موت ہی اس کی قیامت ہے۔ اسی لیے قیامت کبریٰ کے مقابلے میں ہر انسان کی موت کو اس کی ”قیامت صغریٰ“ کہا جاتا ہے۔ چناچہ ان آیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر انسان کو اپنی ’ قیامت صغریٰ ‘ کا تصور اپنے ذہن میں مستحضر رکھنا چاہیے۔

وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ

📘 آیت 27{ وَقِیْلَ مَنْسکتۃ رَاقٍ۔ } ”اور کہا جاتا ہے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ؟“ یہ اس کیفیت کا نقشہ ہے جب بڑے بڑے ڈاکٹر جواب دے دیتے ہیں ‘ حکماء و اطباء معذرت کرلیتے ہیں اور عزیز و اقارب کہنا شروع کرد یتے ہیں کہ بس جی اب دعا کریں۔ اس وقت بڑے سے بڑا عقلیت پسند شخص بھی چاہتا ہے کہ کسی جھاڑ پھونک کرنے والے کو بلا لیا جائے یا کسی تعویذ گنڈے والے کو پوچھ لیا جائے۔ شاید کہ ایسی کسی ترکیب سے اس کا پیارا موت کے منہ میں جانے سے بچ جائے۔

وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ

📘 آیت 28{ وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ۔ } ”اور وہ سمجھ جاتا ہے کہ اب جدائی کی گھڑی آن پہنچی ہے۔“ آدمی کو یقین ہوجاتا ہے کہ اب اہل و عیال سے بچھڑنے اور بڑے ارمانوں سے بنائے ہوئے گھر اور مال و اسباب کو چھوڑنے کا وقت آن پہنچا ہے۔

وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ

📘 آیت 29{ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ۔ } ”اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ جاتی ہے۔“ یہ عین جان کنی کے وقت کی اس کیفیت کا ذکر ہے جب جسم کے نچلے حصے سے انسان کی جان نکلنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس وقت وہ ناقابل بیان کرب اور شدید تکلیف کی کیفیت میں ہوتا ہے۔

أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ

📘 آیت 2{ وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ۔ } ”اور نہیں ! میں قسم کھاتا ہوں نفس لوامہ کی۔“ نفس ِلوامہ ّکے لغوی معنی ہیں ملامت کرنے والا نفس۔ اس سے مراد انسان کا وہ نفس ہے جسے ہم عرف عام میں ضمیر conscience کہتے ہیں۔ اس آیت میں نفس لوامہ یا انسانی ضمیر کو قیام قیامت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ انسانی نفس لوامہ یا ضمیر ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی مسلمان ‘ کافر یا دہریہ انکار نہیں کرسکتا۔ ”میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے“ یا ”My conscience is biting me“ جیسے جملے دنیا بھر کے انسانوں کے ہاں بولے اور سمجھے جاتے ہیں۔ آخر سوچنے کی بات ہے کہ اگر آپ کوئی غلط یا برا کام کریں تو اندر سے کوئی چیز کیوں بار بار آپ کے دل و دماغ میں چبھن پیدا کرتی ہے ؟ اور بعض اوقات اس چبھن کے تسلسل و تکرار کی وجہ سے آپ کی نیند تک کیوں اُڑ جاتی ہے ؟ اگر کوئی نیکی نیکی نہیں اور کوئی برائی برائی نہیں تو برے کام پر آپ کے اندر کی یہ چبھن یا خلش آخر آپ کو کیوں تنگ کرتی ہے ؟ چناچہ نیکی اور بدی کے الگ الگ وجود کا سب سے بڑا اور آفاقی سطح پر مسلمہ ثبوت انسانی نفس کی ملامت یا ضمیر کی خلش ہے۔ اور اگر یہ حقیقت تسلیم کرلی جائے کہ نیکی نیکی ہے اور بدی بدی ہے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسانوں کے نیک اور برے اعمال کا حتمی اور قطعی نتیجہ نکلنا بھی ناگزیر ہے۔ دوسری طرف اس حوالے سے زمینی حقائق سب کے سامنے ہیں۔ یعنی دنیا میں ایسا کوئی حتمی اور قطعی نتیجہ نہ تو نکلتا ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ اس دلیل کی روشنی میں اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ ہر انسان کو اس کے اچھے برے اعمال کی پوری پوری جزا یا سزا دینے کے لیے ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کا وجود میں لایا جانا ناگزیر ہے۔ چناچہ قیامت ‘ آخرت یا بعث بعد الموت کی سب سے بڑی دلیل خود انسان کے اندر موجود ہے ‘ اور وہ ہے انسان کا نفس لوامہ یا اس کا ضمیر۔

إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ

📘 آیت 30{ اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِ نِالْمَسَاقُ۔ } ”اس دن تو تیرے رب ہی کی طرف دھکیلے جانا ہے۔“ نوٹ کیجیے ‘ گزشتہ آیات کے بعد ہم آواز الفاظ سے بننے والا مخصوص صوتی آہنگ ایک مرتبہ پھر تبدیل ہورہا ہے۔

فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّىٰ

📘 آیت 30{ اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِ نِالْمَسَاقُ۔ } ”اس دن تو تیرے رب ہی کی طرف دھکیلے جانا ہے۔“ نوٹ کیجیے ‘ گزشتہ آیات کے بعد ہم آواز الفاظ سے بننے والا مخصوص صوتی آہنگ ایک مرتبہ پھر تبدیل ہورہا ہے۔

وَلَٰكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ

📘 آیت 30{ اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِ نِالْمَسَاقُ۔ } ”اس دن تو تیرے رب ہی کی طرف دھکیلے جانا ہے۔“ نوٹ کیجیے ‘ گزشتہ آیات کے بعد ہم آواز الفاظ سے بننے والا مخصوص صوتی آہنگ ایک مرتبہ پھر تبدیل ہورہا ہے۔

ثُمَّ ذَهَبَ إِلَىٰ أَهْلِهِ يَتَمَطَّىٰ

📘 آیت 33{ ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰٓی اَہْلِہٖ یَتَمَطّٰی۔ } ”پھر چل دیا اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا۔“ ان آیات میں ایک شخص کی حق دشمنی ‘ ڈھٹائی اور اکڑفوں کی لفظی تصویر دکھائی گئی ہے۔ یہ تصویر سردارانِ قریش میں سے کسی خاص شخص کی بھی ہوسکتی ہے اور مجموعی طور پر ان کے عمومی کردار کی بھی۔ سردارانِ قریش کے اس رویے کی جھلک سورة صٓ کی اس آیت میں بھی دکھائی دیتی ہے : { وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُ۔ } ”اور چل پڑے ان کے سردار یہ کہتے ہوئے کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر ‘ یقینا اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔“

أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ

📘 آیت 33{ ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰٓی اَہْلِہٖ یَتَمَطّٰی۔ } ”پھر چل دیا اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا۔“ ان آیات میں ایک شخص کی حق دشمنی ‘ ڈھٹائی اور اکڑفوں کی لفظی تصویر دکھائی گئی ہے۔ یہ تصویر سردارانِ قریش میں سے کسی خاص شخص کی بھی ہوسکتی ہے اور مجموعی طور پر ان کے عمومی کردار کی بھی۔ سردارانِ قریش کے اس رویے کی جھلک سورة صٓ کی اس آیت میں بھی دکھائی دیتی ہے : { وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُ۔ } ”اور چل پڑے ان کے سردار یہ کہتے ہوئے کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر ‘ یقینا اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔“

ثُمَّ أَوْلَىٰ لَكَ فَأَوْلَىٰ

📘 آیت 33{ ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰٓی اَہْلِہٖ یَتَمَطّٰی۔ } ”پھر چل دیا اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا۔“ ان آیات میں ایک شخص کی حق دشمنی ‘ ڈھٹائی اور اکڑفوں کی لفظی تصویر دکھائی گئی ہے۔ یہ تصویر سردارانِ قریش میں سے کسی خاص شخص کی بھی ہوسکتی ہے اور مجموعی طور پر ان کے عمومی کردار کی بھی۔ سردارانِ قریش کے اس رویے کی جھلک سورة صٓ کی اس آیت میں بھی دکھائی دیتی ہے : { وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُ۔ } ”اور چل پڑے ان کے سردار یہ کہتے ہوئے کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر ‘ یقینا اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔“

أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى

📘 آیت 36{ اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی۔ } ”کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا ؟“ کیا یہ لوگ اپنی دنیوی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھے بیٹھے ہیں ؟ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا اور ان کا حساب کتاب نہیں ہوگا ؟ اور انہیں ان کے کرتوتوں کا خمیازہ نہیں بھگتنا پڑے گا ؟

أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنَىٰ

📘 آیت 36{ اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی۔ } ”کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا ؟“ کیا یہ لوگ اپنی دنیوی زندگی کو ہی اصل زندگی سمجھے بیٹھے ہیں ؟ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا اور ان کا حساب کتاب نہیں ہوگا ؟ اور انہیں ان کے کرتوتوں کا خمیازہ نہیں بھگتنا پڑے گا ؟

ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّىٰ

📘 آیت 38{ ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً } ”پھر وہ ایک علقہ بنا“ یعنی پانی کی اس بوند نے جونک جیسی شکل اختیار کرلی جو رحم مادر کی دیوار کے ساتھ چمٹی رہی۔ { فَخَلَقَ فَسَوّٰی۔ } ”پھر اللہ نے اس کو بنایا اور اس کے اعضاء درست کیے۔“ اللہ تعالیٰ نے علقہ کو گوشت کے لوتھڑے مضغہ میں تبدیل کیا اور پھر اس کا جسم بنایا ‘ جس میں آنکھیں ‘ ناک ‘ کان اور اپنی اپنی جگہ پر دوسرے تمام اعضاء بنا دیے۔ اور یہ سب کچھ ہوتا رہا : { فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰـثٍط } الزمر : 6 شکم مادر کے تین پردوں کے اندر۔

فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَىٰ

📘 آیت 39{ فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی۔ } ”پھر اسی سے اس نے دو زوج بنائے ‘ نر اور مادہ۔“ کسی کو اس نے مرد بنا دیا اور کسی کو عورت۔

بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ

📘 آیت 4{ بَلٰی قٰدِرِیْنَ عَلٰٓی اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ۔ } ”کیوں نہیں ! ہم تو پوری طرح قادر ہیں اس پر بھی کہ ہم اس کی ایک ایک پور درست کردیں۔“ یہاں پر بلٰیکے بعد لفظ کُنَّا محذوف ہے ‘ گویا تقدیر عبارت یوں ہے : بلٰی کُنَّا قَادِرِیْن …

أَلَيْسَ ذَٰلِكَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ

📘 آیت 40{ اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتٰی۔ } ”تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ ُ مردوں کو زندہ کردے ؟“ کیا تم لوگ جانتے نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو گندے پانی کی بوند سے پیدا کیا ہے ؟ اولادِ آدم علیہ السلام میں سے افلاطون ‘ بقراط اور سقراط کی تخلیق بھی اسی بوند سے ہوئی اور تمام انبیاء اور اولیاء اللہ بھی ایسے ہی پیدا ہوئے۔ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے استثناء کے علاوہ نسل انسانی کے تمام افراد اللہ تعالیٰ نے اسی طریقے سے پیدا کیے۔ { اَفَعَیِیْنَا بِالْخَلْقِ الْاَوَّلِط } قٓ: 15 ”تو کیا پہلی مرتبہ تم لوگوں کو پیدا کرنے کے بعد اب ہم عاجز آگئے ہیں ؟“ تو اے عقل کے اندھو ! کیا تم یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو ذات پانی کی ایک بوند سے زندہ سلامت ‘ خوبصورت ‘ بہترین صلاحیتوں کے مالک انسان کو پیدا کرسکتی ہے ‘ کیا وہ مردہ انسانوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوگی ؟ اس آیت کا انداز چونکہ سوالیہ ہے اس لیے اسے سن کر یا پڑھ کر ہماری زبانوں پر بےساختہ یہ الفاظ آجانے چاہئیں : ”کیوں نہیں ! اے ہمارے پروردگار ! تیری ذات پاک ہے۔ ہم گواہ ہیں کہ تو ُ مردوں کو زندہ کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔“ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب اس آیت کو پڑھتے تو اس سوال کے جواب میں کبھی بَلٰی کیوں نہیں ! اور کبھی سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ فَـبَلٰی پاک ہے تیری ذات ‘ اے اللہ ! کیوں نہیں ! جیسے الفاظ فرمایا کرتے تھے۔

بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ

📘 آیت 5{ بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَہٗ۔ } ”بلکہ انسان تو یہ چاہتا ہے کہ فسق و فجور آگے بھی جاری رکھے۔“ انسانوں کے ہاں آخرت کے انکار کی سب سے بڑی اور اصل وجہ یہ ہے کہ وہ نیکی و بدی اور جائز و ناجائز کی تمیز ختم کر کے عیش و عشرت کے خوگر ہوجاتے ہیں۔ چناچہ حرام خوریاں چھوڑ کر راہ راست پر آنے کے مقابلے میں انہیں آخرت کا انکار کردینا آسان محسوس ہوتا ہے۔ آخرت کے بارے میں انسان کا یہ رویہ ایسے ہی ہے جیسے ِ بلی ّکو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ لیکن جس طرح کبوتر کے آنکھیں بند کرلینے سے بلی اپنا فیصلہ نہیں بدلتی اسی طرح ان کے انکار کردینے سے قیامت کے وقوع میں کوئی خلل نہیں آئے گا۔ وہ ایک حقیقت ہے اور حقیقت کے طور پر اپنے معین وقت پر آدھمکے گی۔

يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ

📘 آیت 6{ یَسْئَلُ اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیٰمَۃِ۔ } ”وہ پوچھتا ہے : کب آئے گا قیامت کا دن ؟“ مشرکین مکہ حضور ﷺ سے یہ سوال طنزیہ طور پر پوچھتے تھے۔ اسی لیے اس کا جواب بھی بہت تیکھے انداز میں دیا گیا ہے۔ سوال و جواب کا یہی انداز اور اسلوب سورة الذاریات کی ان آیات میں بھی پایا جاتا ہے : { یَسْئَلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِ - یَوْمَ ہُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ۔ } ”وہ پوچھتے ہیں کب آئے گا وہ جزا و سزا کا دن ؟ جس دن یہ لوگ آگ پر سینکے جائیں گے“۔ مذکورہ سوال کا جواب بھی بالکل اسی انداز میں دیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ ہو :

فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ

📘 آیت 6{ یَسْئَلُ اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیٰمَۃِ۔ } ”وہ پوچھتا ہے : کب آئے گا قیامت کا دن ؟“ مشرکین مکہ حضور ﷺ سے یہ سوال طنزیہ طور پر پوچھتے تھے۔ اسی لیے اس کا جواب بھی بہت تیکھے انداز میں دیا گیا ہے۔ سوال و جواب کا یہی انداز اور اسلوب سورة الذاریات کی ان آیات میں بھی پایا جاتا ہے : { یَسْئَلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِ - یَوْمَ ہُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ۔ } ”وہ پوچھتے ہیں کب آئے گا وہ جزا و سزا کا دن ؟ جس دن یہ لوگ آگ پر سینکے جائیں گے“۔ مذکورہ سوال کا جواب بھی بالکل اسی انداز میں دیا جا رہا ہے۔ ملاحظہ ہو :

وَخَسَفَ الْقَمَرُ

📘 آیت 8{ وَخَسَفَ الْقَمَرُ۔ } ”اور چاند بےنور ہوجائے گا۔“ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ چاند سورج کے اندر دھنس جائے گا۔

وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ

📘 آیت 9{ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ۔ } ”اور سورج اور چاند یکجا کردیے جائیں گے۔“ اس وقت سورج چاند سمیت تمام اجرامِ فلکی کشش ثقل کے قانون کے تحت اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ جب یہ نظام ڈھیلا پڑے گا تو تمام ُ کرے ّآپس میں ٹکرا جائیں گے۔