🕋 تفسير سورة المرسلات
(Al-Mursalat) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا
📘 آیت 1{ وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا۔ } ”قسم ہے ان ہوائوں کی جو چلائی جاتی ہیں بڑی آہستگی سے۔“ اللہ تعالیٰ ان ہوائوں کو خاص مقاصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چلاتا ہے۔
وَإِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ
📘 آیت 10{ وَاِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ۔ } ”اور جب پہاڑ ریت بنا کر اُڑا دیے جائیں گے۔“ قیامت کے زلزلے کے باعثپہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر ریت کے ٹیلوں کی مانند ہوجائیں گے اور ان ٹیلوں کے ذرّات ہوا میں اڑتے پھریں گے۔
وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ
📘 آیت 1 1{ وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ۔ } ”اور جب رسولوں علیہ السلام کے کھڑے ہونے کا وقت آپہنچے گا۔“ جب انبیاء ورسل - اللہ تعالیٰ کی عدالت میں شہادتیں دینے کے لیے کھڑے ہوں گے۔
لِأَيِّ يَوْمٍ أُجِّلَتْ
📘 آیت 1 1{ وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ۔ } ”اور جب رسولوں علیہ السلام کے کھڑے ہونے کا وقت آپہنچے گا۔“ جب انبیاء ورسل - اللہ تعالیٰ کی عدالت میں شہادتیں دینے کے لیے کھڑے ہوں گے۔
لِيَوْمِ الْفَصْلِ
📘 آیت 13{ لِیَوْمِ الْفَصْلِ۔ } ”فیصلے کے دن کے لیے۔“ یعنی انبیاء و رسل - کی اپنی اپنی قوموں کے خلاف گواہی کہ اے اللہ ! ہم نے تیرا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا ‘ اب یہ لوگ خود جوابدہ ہیں اور خود متعلقہ اقوام کے افراد سے پوچھ گچھ جیسے معاملات اسی فیصلے کے دن کے لیے موخر کیے گئے ہیں۔
وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الْفَصْلِ
📘 آیت 13{ لِیَوْمِ الْفَصْلِ۔ } ”فیصلے کے دن کے لیے۔“ یعنی انبیاء و رسل - کی اپنی اپنی قوموں کے خلاف گواہی کہ اے اللہ ! ہم نے تیرا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا ‘ اب یہ لوگ خود جوابدہ ہیں اور خود متعلقہ اقوام کے افراد سے پوچھ گچھ جیسے معاملات اسی فیصلے کے دن کے لیے موخر کیے گئے ہیں۔
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ
📘 آیت 15{ وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ۔ } ”ہلاکت اور بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔“ لفظ ”ویل“ کے معنی تباہی اور بربادی کے بھی ہیں اور یہ جہنم کی ایک وادی کا نام بھی ہے ‘ جس کی سختیوں سے خود جہنم بھی پناہ مانگتی ہے۔
أَلَمْ نُهْلِكِ الْأَوَّلِينَ
📘 آیت 15{ وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ۔ } ”ہلاکت اور بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔“ لفظ ”ویل“ کے معنی تباہی اور بربادی کے بھی ہیں اور یہ جہنم کی ایک وادی کا نام بھی ہے ‘ جس کی سختیوں سے خود جہنم بھی پناہ مانگتی ہے۔
ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْآخِرِينَ
📘 آیت 17{ ثُمَّ نُتْبِعُہُمُ الْاٰخِرِیْنَ۔ } ”پھر ہم ان کے پیچھے لگاتے رہے بعد میں آنے والوں کو۔“ اس سے نوع انسانی کی مختلف نسلوں کا یکے بعد دیگرے معمول کے مطابق دنیا میں آنا بھی مراد ہے اور ایک قوم کی تباہی کے بعد اس کی جگہ دوسری قوم کا اٹھایا جانا بھی۔ جیسے قوم نوح علیہ السلام کی ہلاکت کے بعد قوم عاد اور قوم عاد کی بربادی کے بعد قوم ثمود کو پیدا کیا گیا۔
كَذَٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ
📘 آیت 17{ ثُمَّ نُتْبِعُہُمُ الْاٰخِرِیْنَ۔ } ”پھر ہم ان کے پیچھے لگاتے رہے بعد میں آنے والوں کو۔“ اس سے نوع انسانی کی مختلف نسلوں کا یکے بعد دیگرے معمول کے مطابق دنیا میں آنا بھی مراد ہے اور ایک قوم کی تباہی کے بعد اس کی جگہ دوسری قوم کا اٹھایا جانا بھی۔ جیسے قوم نوح علیہ السلام کی ہلاکت کے بعد قوم عاد اور قوم عاد کی بربادی کے بعد قوم ثمود کو پیدا کیا گیا۔
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ
📘 آیت 19{ وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ۔ } ”ہلاکت اور بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔“ یہ اس سورت کی ترجیعی بار بار دہرائی جانے والی آیت ہے جو اس میں دس مرتبہ آئی ہے۔
فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفًا
📘 آیت 1{ وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا۔ } ”قسم ہے ان ہوائوں کی جو چلائی جاتی ہیں بڑی آہستگی سے۔“ اللہ تعالیٰ ان ہوائوں کو خاص مقاصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چلاتا ہے۔
أَلَمْ نَخْلُقْكُمْ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ
📘 آیت 20{ اَلَمْ نَخْلُقْکُّمْ مِّنْ مَّآئٍ مَّہِیْنٍ۔ } ”کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا ؟“ انسان کا مادئہ تخلیق ایسی گھٹیا چیز ہے کہ جس کا نام بھی کوئی اپنی زبان پر لانا پسند نہیں کرتا۔ سورة الدھر میں اس حقیقت کا ذکر اس طرح آیا ہے : { ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا۔ } ”کیا انسان پر اس زمانے میں ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جبکہ وہ کوئی قابل ذکر شے نہیں تھا ؟“
فَجَعَلْنَاهُ فِي قَرَارٍ مَكِينٍ
📘 آیت 21{ فَجَعَلْنٰــہُ فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ۔ } ”پھر ہم نے اس نطفے کو رکھ دیا ایک محفوظ مقام میں۔“ یعنی اس حقیر پانی کی بوند کو مختلف مراحل سے گزارنے کے لیے ہم نے اسے ایک محفوظ مقام یعنی رحم مادر میں رکھا جو اس کے لیے ایک مضبوط قلعے کی حیثیت رکھتا ہے۔
إِلَىٰ قَدَرٍ مَعْلُومٍ
📘 آیت 21{ فَجَعَلْنٰــہُ فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ۔ } ”پھر ہم نے اس نطفے کو رکھ دیا ایک محفوظ مقام میں۔“ یعنی اس حقیر پانی کی بوند کو مختلف مراحل سے گزارنے کے لیے ہم نے اسے ایک محفوظ مقام یعنی رحم مادر میں رکھا جو اس کے لیے ایک مضبوط قلعے کی حیثیت رکھتا ہے۔
فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُونَ
📘 آیت 23 { فَقَدَرْنَاق فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ۔ } ”تو ہم نے اندازہ مقرر کیا ‘ اور ہم کیا ہی اچھے ہیں اندازہ مقرر کرنے والے !“ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ اپنی قدرت سے کیا اور ہم کیا ہی اچھی قدرت رکھنے والے ہیں !
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ
📘 آیت 23 { فَقَدَرْنَاق فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ۔ } ”تو ہم نے اندازہ مقرر کیا ‘ اور ہم کیا ہی اچھے ہیں اندازہ مقرر کرنے والے !“ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ اپنی قدرت سے کیا اور ہم کیا ہی اچھی قدرت رکھنے والے ہیں !
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا
📘 آیت 23 { فَقَدَرْنَاق فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ۔ } ”تو ہم نے اندازہ مقرر کیا ‘ اور ہم کیا ہی اچھے ہیں اندازہ مقرر کرنے والے !“ اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ اپنی قدرت سے کیا اور ہم کیا ہی اچھی قدرت رکھنے والے ہیں !
أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا
📘 آیت 26 { اَحْیَآئً وَّاَمْوَاتًا۔ } ”زندوں کو بھی اور ُ مردوں کو بھی !“ اللہ تعالیٰ نے یہ زمین ایسی بنائی ہے کہ یہ اپنے اوپر موجود ہر زندہ وجود کی تمام ضروریات پوری کر رہی ہے اور ہر قسم کے مردہ کو بھی تحلیل کر کے اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں ایسی گنجائش رکھی ہے کہ یہ تاقیامِ قیامت تمام زندوں اور تمام ُ مردوں کے لیے کفایت کرے گی۔
وَجَعَلْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ شَامِخَاتٍ وَأَسْقَيْنَاكُمْ مَاءً فُرَاتًا
📘 آیت 26 { اَحْیَآئً وَّاَمْوَاتًا۔ } ”زندوں کو بھی اور ُ مردوں کو بھی !“ اللہ تعالیٰ نے یہ زمین ایسی بنائی ہے کہ یہ اپنے اوپر موجود ہر زندہ وجود کی تمام ضروریات پوری کر رہی ہے اور ہر قسم کے مردہ کو بھی تحلیل کر کے اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں ایسی گنجائش رکھی ہے کہ یہ تاقیامِ قیامت تمام زندوں اور تمام ُ مردوں کے لیے کفایت کرے گی۔
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ
📘 آیت 28 { وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ۔ } ”ہلاکت اور بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔“ ان تمام آیات میں تذکیر بآلاء اللہ کا انداز ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں ‘ نعمتوں اور اس کے احسانات کے ذکر سے یاد دہانی کرائی جا رہی ہے۔
انْطَلِقُوا إِلَىٰ مَا كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ
📘 آیت 29 { اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی مَا کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ۔ } ”چلو اب اسی چیز کی طرف جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔“ یعنی جہنم کی آگ کی طرف۔ یہ وہ حکم ہے جو میدانِ محشر میں اہل جہنم کو سنایا جائے گا۔
وَالنَّاشِرَاتِ نَشْرًا
📘 آیت 1{ وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا۔ } ”قسم ہے ان ہوائوں کی جو چلائی جاتی ہیں بڑی آہستگی سے۔“ اللہ تعالیٰ ان ہوائوں کو خاص مقاصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چلاتا ہے۔
انْطَلِقُوا إِلَىٰ ظِلٍّ ذِي ثَلَاثِ شُعَبٍ
📘 آیت 30{ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ } ”چلو اس تین شاخوں والے سائے کی طرف !“ میدانِ محشر کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں جب وہ لوگ جہنم کو دیکھیں گے تو دور سے وہ انہیں تین اطراف میں پھیلے ہوئے سائے والی کسی جگہ کی طرح نظرآئے گی۔ چناچہ انہیں کہا جائے گا کہ اگر تمہیں وہ سایہ نظر آتا ہے تو چلو اس سائے کی طرف ! لیکن اس ”سائے“ کی حقیقت یہ ہوگی کہ :
لَا ظَلِيلٍ وَلَا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ
📘 آیت 30{ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ } ”چلو اس تین شاخوں والے سائے کی طرف !“ میدانِ محشر کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں جب وہ لوگ جہنم کو دیکھیں گے تو دور سے وہ انہیں تین اطراف میں پھیلے ہوئے سائے والی کسی جگہ کی طرح نظرآئے گی۔ چناچہ انہیں کہا جائے گا کہ اگر تمہیں وہ سایہ نظر آتا ہے تو چلو اس سائے کی طرف ! لیکن اس ”سائے“ کی حقیقت یہ ہوگی کہ :
إِنَّهَا تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ
📘 آیت 30{ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ } ”چلو اس تین شاخوں والے سائے کی طرف !“ میدانِ محشر کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں جب وہ لوگ جہنم کو دیکھیں گے تو دور سے وہ انہیں تین اطراف میں پھیلے ہوئے سائے والی کسی جگہ کی طرح نظرآئے گی۔ چناچہ انہیں کہا جائے گا کہ اگر تمہیں وہ سایہ نظر آتا ہے تو چلو اس سائے کی طرف ! لیکن اس ”سائے“ کی حقیقت یہ ہوگی کہ :
كَأَنَّهُ جِمَالَتٌ صُفْرٌ
📘 آیت 30{ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ } ”چلو اس تین شاخوں والے سائے کی طرف !“ میدانِ محشر کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں جب وہ لوگ جہنم کو دیکھیں گے تو دور سے وہ انہیں تین اطراف میں پھیلے ہوئے سائے والی کسی جگہ کی طرح نظرآئے گی۔ چناچہ انہیں کہا جائے گا کہ اگر تمہیں وہ سایہ نظر آتا ہے تو چلو اس سائے کی طرف ! لیکن اس ”سائے“ کی حقیقت یہ ہوگی کہ :
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ
📘 آیت 30{ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ } ”چلو اس تین شاخوں والے سائے کی طرف !“ میدانِ محشر کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں جب وہ لوگ جہنم کو دیکھیں گے تو دور سے وہ انہیں تین اطراف میں پھیلے ہوئے سائے والی کسی جگہ کی طرح نظرآئے گی۔ چناچہ انہیں کہا جائے گا کہ اگر تمہیں وہ سایہ نظر آتا ہے تو چلو اس سائے کی طرف ! لیکن اس ”سائے“ کی حقیقت یہ ہوگی کہ :
هَٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُونَ
📘 آیت 30{ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ } ”چلو اس تین شاخوں والے سائے کی طرف !“ میدانِ محشر کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں جب وہ لوگ جہنم کو دیکھیں گے تو دور سے وہ انہیں تین اطراف میں پھیلے ہوئے سائے والی کسی جگہ کی طرح نظرآئے گی۔ چناچہ انہیں کہا جائے گا کہ اگر تمہیں وہ سایہ نظر آتا ہے تو چلو اس سائے کی طرف ! لیکن اس ”سائے“ کی حقیقت یہ ہوگی کہ :
وَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُونَ
📘 آیت 30{ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ } ”چلو اس تین شاخوں والے سائے کی طرف !“ میدانِ محشر کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں جب وہ لوگ جہنم کو دیکھیں گے تو دور سے وہ انہیں تین اطراف میں پھیلے ہوئے سائے والی کسی جگہ کی طرح نظرآئے گی۔ چناچہ انہیں کہا جائے گا کہ اگر تمہیں وہ سایہ نظر آتا ہے تو چلو اس سائے کی طرف ! لیکن اس ”سائے“ کی حقیقت یہ ہوگی کہ :
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ
📘 آیت 30{ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ } ”چلو اس تین شاخوں والے سائے کی طرف !“ میدانِ محشر کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں جب وہ لوگ جہنم کو دیکھیں گے تو دور سے وہ انہیں تین اطراف میں پھیلے ہوئے سائے والی کسی جگہ کی طرح نظرآئے گی۔ چناچہ انہیں کہا جائے گا کہ اگر تمہیں وہ سایہ نظر آتا ہے تو چلو اس سائے کی طرف ! لیکن اس ”سائے“ کی حقیقت یہ ہوگی کہ :
هَٰذَا يَوْمُ الْفَصْلِ ۖ جَمَعْنَاكُمْ وَالْأَوَّلِينَ
📘 آیت 30{ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ } ”چلو اس تین شاخوں والے سائے کی طرف !“ میدانِ محشر کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں جب وہ لوگ جہنم کو دیکھیں گے تو دور سے وہ انہیں تین اطراف میں پھیلے ہوئے سائے والی کسی جگہ کی طرح نظرآئے گی۔ چناچہ انہیں کہا جائے گا کہ اگر تمہیں وہ سایہ نظر آتا ہے تو چلو اس سائے کی طرف ! لیکن اس ”سائے“ کی حقیقت یہ ہوگی کہ :
فَإِنْ كَانَ لَكُمْ كَيْدٌ فَكِيدُونِ
📘 آیت 30{ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ } ”چلو اس تین شاخوں والے سائے کی طرف !“ میدانِ محشر کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں جب وہ لوگ جہنم کو دیکھیں گے تو دور سے وہ انہیں تین اطراف میں پھیلے ہوئے سائے والی کسی جگہ کی طرح نظرآئے گی۔ چناچہ انہیں کہا جائے گا کہ اگر تمہیں وہ سایہ نظر آتا ہے تو چلو اس سائے کی طرف ! لیکن اس ”سائے“ کی حقیقت یہ ہوگی کہ :
فَالْفَارِقَاتِ فَرْقًا
📘 آیت 4{ فَالْفٰرِقٰتِ فَرْقًا۔ } ”پھر تقسیم کرتی ہیں جدا جدا۔“ سورة الذاریات میں ہوائوں کی اس خصوصیت کا ذکر { فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا۔ } کے الفاظ میں ہوا ہے۔ یعنی ہوائیں سمندر سے بخارات کو بادلوں کی صورت میں دور دراز علاقوں تک لے جاتی ہیں ‘ پھر وہ اس پانی کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مختلف علاقوں میں بارش کی صورت میں تقسیم کرتی ہیں۔ اس تقسیم میں ان کا معاملہ ہر جگہ یکساں نہیں ہوتا بلکہ ُ جدا جدا ہوتا ہے۔ کہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سے َجل تھل ہوجاتا ہے اور کوئی علاقہ خشک رہ جاتا ہے۔
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ
📘 آیت 30{ اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ۔ } ”چلو اس تین شاخوں والے سائے کی طرف !“ میدانِ محشر کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں جب وہ لوگ جہنم کو دیکھیں گے تو دور سے وہ انہیں تین اطراف میں پھیلے ہوئے سائے والی کسی جگہ کی طرح نظرآئے گی۔ چناچہ انہیں کہا جائے گا کہ اگر تمہیں وہ سایہ نظر آتا ہے تو چلو اس سائے کی طرف ! لیکن اس ”سائے“ کی حقیقت یہ ہوگی کہ :
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ
📘 اب دوسرے رکوع کی دس آیات میں تصویر کا دوسرا رخ دکھایا جا رہا ہے۔ یہاں شروع میں اہل ایمان کا احوال بیان ہوا ہے اور آخر میں انتہائی اختصار کے ساتھ کفار کا ذکر آیا ہے۔
وَفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ
📘 آیت 42{ وَّفَوَاکِہَ مِمَّا یَشْتَہُوْنَ۔ } ’ انہیں ایسے پھل دیے جائیں گے جنہیں کھانا انہیں بہت مرغوب ہوگا۔
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
📘 آیت 42{ وَّفَوَاکِہَ مِمَّا یَشْتَہُوْنَ۔ } ’ انہیں ایسے پھل دیے جائیں گے جنہیں کھانا انہیں بہت مرغوب ہوگا۔
إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
📘 آیت 42{ وَّفَوَاکِہَ مِمَّا یَشْتَہُوْنَ۔ } ’ انہیں ایسے پھل دیے جائیں گے جنہیں کھانا انہیں بہت مرغوب ہوگا۔
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ
📘 آیت 45{ وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ۔ } ”ہلاکت اور بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔“ اس کے بعد اب روئے سخن پھر کفار و مشرکین کی طرف ہوگیا ہے۔
كُلُوا وَتَمَتَّعُوا قَلِيلًا إِنَّكُمْ مُجْرِمُونَ
📘 آیت 46{ کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلًا اِنَّکُمْ مُّجْرِمُوْنَ۔ } ”اے کفار و مشرکین ! تم کھا پی لو تھوڑی دیر کے لیے ‘ یقینا تم لوگ مجرم ہو۔“ تم لوگ اپنی دنیوی زندگی میں عیش کر رہے ہو تو کرتے جائو۔ بالآخر قیامت کے دن تمہیں مجرموں کی حیثیت سے ہمارے سامنے پیش ہونا ہے۔
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ
📘 آیت 46{ کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلًا اِنَّکُمْ مُّجْرِمُوْنَ۔ } ”اے کفار و مشرکین ! تم کھا پی لو تھوڑی دیر کے لیے ‘ یقینا تم لوگ مجرم ہو۔“ تم لوگ اپنی دنیوی زندگی میں عیش کر رہے ہو تو کرتے جائو۔ بالآخر قیامت کے دن تمہیں مجرموں کی حیثیت سے ہمارے سامنے پیش ہونا ہے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لَا يَرْكَعُونَ
📘 آیت 46{ کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلًا اِنَّکُمْ مُّجْرِمُوْنَ۔ } ”اے کفار و مشرکین ! تم کھا پی لو تھوڑی دیر کے لیے ‘ یقینا تم لوگ مجرم ہو۔“ تم لوگ اپنی دنیوی زندگی میں عیش کر رہے ہو تو کرتے جائو۔ بالآخر قیامت کے دن تمہیں مجرموں کی حیثیت سے ہمارے سامنے پیش ہونا ہے۔
وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ
📘 آیت 46{ کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلًا اِنَّکُمْ مُّجْرِمُوْنَ۔ } ”اے کفار و مشرکین ! تم کھا پی لو تھوڑی دیر کے لیے ‘ یقینا تم لوگ مجرم ہو۔“ تم لوگ اپنی دنیوی زندگی میں عیش کر رہے ہو تو کرتے جائو۔ بالآخر قیامت کے دن تمہیں مجرموں کی حیثیت سے ہمارے سامنے پیش ہونا ہے۔
فَالْمُلْقِيَاتِ ذِكْرًا
📘 آیت 5{ فَالْمُلْقِیٰتِ ذِکْرًا۔ } ”پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو ذکر کا القاء کرتے ہیں۔“ گزشتہ چار آیات کے بارے میں تقریباً تمام مفسرین متفق ہیں کہ ان میں ہوائوں کا ذکر ہے۔ البتہ اس آیت کے حوالے سے زیادہ تر مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے فرشتے مراد ہیں ‘ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لے کر آتے ہیں۔ البتہ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں بھی ہوائوں ہی کا تذکرہ ہے۔ اس حوالے سے ان مفسرین کا استدلال یہ ہے کہ کسی نبی یا کسی داعی کی آواز بھی تو ہوا ہی کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچتی ہے۔ یعنی پیغامات و معلومات کی ترسیل و تقسیم کا ذریعہ medium تو بہرحال ہوا ہی ہے۔
فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ
📘 آیت 50{ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ۔ } ”تو اب اس قرآن کے بعد یہ اور کس کلام پر ایمان لائیں گے ؟“ قرآن جیسا کلام سن کر بھی جس انسان کی آنکھیں نہیں کھلیں ‘ تو اس کے بعد اس کی آنکھیں بھلا کب کھلیں گی ؟
عُذْرًا أَوْ نُذْرًا
📘 آیت 6{ عُذْرًا اَوْ نُذْرًا۔ } ”عذر کے طور پر یا خبردار کرنے کے لیے۔“ وحی یا ذکر یاد دہانی کا ابلاغ یا تو اس لیے ہوتا ہے کہ لوگوں پر اتمامِ حجت ہو اور ان کا عذر ختم ہوجائے۔ جیسا کہ سورة النساء کی آیت 165 میں انبیاء و رسل - کی بعثت کا مقصد واضح کرتے ہوئے فرمایا گیا : { لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِط } ”تا کہ نہ رہ جائے لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت دلیل رسولوں علیہ السلام کے آنے کے بعد“۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں علیہ السلام کو دنیا میں اسی لیے بھیجا تھا کہ ان کی بعثت کے بعد لوگوں کے پاس اس کے ہاں پیش کرنے کے لیے کوئی عذرنہ رہ جائے۔ وحی یا یاددہانی کا دوسرا مقصد یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ لوگوں کو خبردار کرنے نُذْرًا کے لیے ہوتی ہے کہ اگر وہ جاگنا چاہیں تو جاگ جائیں اور راہ راست پر آنا چاہیں تو آجائیں۔ اب اگلی آیت میں ان قسموں کے مقسم علیہ کا ذکر ہے کہ یہ قسمیں کس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کھائی گئی ہیں :
إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِعٌ
📘 آیت 7{ اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَـوَاقِعٌ۔ } ”جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ واقع ہو کر رہے گی۔“ یعنی جس قیامت کے بارے میں تم لوگوں کو بار بار متنبہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور آکر رہے گی۔ واضح رہے کہ سورة قٓ سے لے کر سورة الناس تک مکی سورتوں کا موضوع انذارِ آخرت ہے۔ اس لیے سورة الذاریات کی قسموں کا مقسم علیہ بھی انذارِ آخرت ہی سے متعلق تھا : { اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ - وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ۔ } ”جو وعدہ تمہیں دیا جا رہا ہے وہ یقینا سچ ہے۔ اور جزا و سزا ضرور واقع ہو کر رہے گی“۔ البتہ سورة الصافات کے آغاز میں مذکور قسموں کا انداز تو بالکل ایسا ہی ہے لیکن وہاں ان قسموں کے مقسم علیہ کا تعلق توحید سے ہے : { اِنَّ اِلٰہَکُمْ لَوَاحِدٌ۔ } ”یقینا تمہارا اِلٰہ ایک ہی ہے“۔ اس لیے کہ سورة الصافات کا تعلق سورتوں کے جس گروپ سے ہے اس گروپ کا مرکزی مضمون ہی توحید ہے۔
فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتْ
📘 آیت 8{ فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ۔ } ”پس جب ستارے مٹا دیے جائیں گے۔“ یعنی بےنور کردیے جائیں گے اور ان کی روشنی ختم ہوجائے گی۔
وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْ
📘 آیت 9{ وَاِذَا السَّمَآئُ فُرِجَتْ۔ } ”اور جب آسمان میں شگاف پڑجائیں گے۔“ ایسی آیات ہمارے لیے آیات متشابہات کا درجہ رکھتی ہیں۔ البتہ توقع کی جاسکتی ہے کہ جیسے جیسے سائنسی ترقی کی بدولت انسان کی معلومات بڑھیں گی ‘ ان آیات کا مفہوم بتدریج واضح ہوتا چلا جائے گا۔