An-Naazi'aat • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ مَتَٰعًۭا لَّكُمْ وَلِأَنْعَٰمِكُمْ ﴾
“[all this] as a means of livelihood for you and your animals.”
آیت 31{ اَخْرَجَ مِنْہَا مَآئَ ہَا وَمَرْعٰٹہَا۔ } ”اس میں سے نکالا اس کا پانی اور اس کا چارہ۔“ یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق توجہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنا پانی موجود ہے اس کا منبع خود زمین ہے۔ آج سائنسی معلومات کی روشنی میں ہم اس کی وضاحت یوں کرسکتے ہیں کہ ابتدا میں زمین آگ کا ایک گولا تھی۔ جوں جوں یہ ٹھنڈی ہوتی گئی اس کے بخارات نکل کر فضا میں جمع ہوتے رہے۔ اس طرح زمین کے ارد گرد مختلف گیسوں پر مشتمل ایک غلاف سا بن گیا ‘ جسے آج ہم فضا atmosphere کہتے ہیں۔ پھر کسی مرحلے پر فضا میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملاپ سے پانی بنا۔ یہ پانی فضا سے بارش کی شکل میں سالہا سال تک زمین پر برستا رہا۔ اس کے بعد سورج کی تپش سے بخارات اٹھنے ‘ بادل بننے اور بارش برسنے کے معمول پر مشتمل پانی کا وہ مربوط نظام بنا جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل water cycle کا نام دیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقدار کے مطابق دنیا میں پانی پیدا فرما کر زمین پر موجود ”زندگی“ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس کی رسد اور ترسیل کا ایک خوبصورت نظام cycle تشکیل دے دیا ہے۔ اس نظام کے تحت سمندروں کے بخارات سے بادل بنتے ہیں۔ ان بادلوں سے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکمت کے تحت مختلف علاقوں میں بارش برستی ہے اور برفباری ہوتی ہے۔ پھر پہاڑوں پر برف کے وسیع ذخائر سے نالوں اور دریائوں کے ذریعے نشیبی علاقوں کو سارا سال پانی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ گویا بارشوں اور پہاڑی گلیشیرز کے overhead tanks سے حاصل ہونے والے پانی سے پوری دنیا میں زیرزمین پانی کے ذخیرے کو رسد بھی مہیا ہوتی رہتی ہے اور ہر طرح کی ”زندگی“ کی تمام ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جو پانی بچ رہتا ہے وہ واپس سمندر میں چلا جاتا ہے۔