An-Naazi'aat • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ فَإِنَّ ٱلْجَحِيمَ هِىَ ٱلْمَأْوَىٰ ﴾
“that blazing fire will truly be the goal!”
آیت 39{ فَاِنَّ الْجَحِیْمَ ہِیَ الْمَاْوٰی۔ } ”تو یقینا اس کا ٹھکانہ اب جہنم ہی ہے۔“ ایک بندئہ مومن کو چاہیے کہ یہ تین آیات ہمیشہ کے لیے اپنی گرہ میں باندھ لے اور اپنی عملی زندگی میں ان کے مفہوم اور پیغام کو اپنے دل و دماغ میں ہر وقت مستحضر رکھے۔ طَغٰی کے معنی ہیں کسی کا اپنی حدود سے تجاوز کرنا۔ اسی معنی میں ہمارے ہاں طغیانی کا لفظ معروف ہے اور اسی مفہوم میں اس مادہ سے لفظ ”طاغوت“ مشتق ہے۔ چناچہ ان آیات کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے : { وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ } الذّٰریت یعنی جنوں اور انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ اس کے ”بندے“ بن کر رہیں۔ اب جب کوئی انسان ”بندگی“ کی حدود سے آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنے قانون ‘ اپنے اختیار اور اپنی مرضی کی بات کرے گا تو وہ ”بندے“ کے بجائے ”طاغوت“ بن جائے گا۔ چناچہ جو ”بندہ“ بندگی کی حدود سے تجاوز کر کے طاغوت بن گیا اور پھر اس نے اپنی سوچ ‘ اپنی مرضی ‘ اپنی منصوبہ بندی اور اپنے فیصلوں میں آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینے کی روش اپنا لی تو آخرت میں اس کے لیے جہنم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔