At-Tawba • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ وَءَاخَرُونَ ٱعْتَرَفُوا۟ بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا۟ عَمَلًۭا صَٰلِحًۭا وَءَاخَرَ سَيِّئًا عَسَى ٱللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌ ﴾
“And [there are] others - [people who] have become conscious of their sinning after having done righteous deeds side by side with evil ones; [and] it may well be that God will accept their repentance: for, verily, God is much-forgiving, a dispenser' of grace.”
آیت 102 وَاٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِہِمْ وہ اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے جھوٹ نہیں بولتے ‘ جھوٹی قسمیں نہیں کھاتے ‘ جھوٹے بہانے نہیں بناتے ‘ بلکہ کھلے عام اعتراف کرلیتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوگئی ‘ معمولات زندگی کی مصروفیات اور اہل و عیال کی مشغولیات نے ہمیں اس قدر الجھایا کہ ہم دینی فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کا ارتکاب کر بیٹھے۔ جب غلطی کا ایسا کھلا اعتراف ہوگیا تو نفاق کا احتمال جاتا رہا۔ لہٰذا انہیں توبہ کی توفیق مل گئی۔ خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّءًا ط نیک اعمال بھی کرتے ہیں مگر کبھی کوئی غلطی بھی کر بیٹھتے ہیں۔ ایثار وا نفاق بھی کرتے ہیں مگر دنیاداری کے جھمیلوں میں الجھ کر کہیں کوئی تقصیر بھی ہوجاتی ہے۔عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْہِمْط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ایک روایت کے مطابق یہ آیت حضرت ابو لبابہ رض اور ان کے چند ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان لوگوں سے سستی اور دنیاداری کی مصروفیات کے باعث یہ کوتاہی ہوئی کہ وہ غزوۂ تبوک پر نہ جاسکے ‘ مگر جلد ہی انہیں احساس ہوگیا کہ ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ چناچہ انہوں نے شدید احساس ندامت کے باعث رسول اللہ ﷺ کے واپس مدینہ تشریف لانے سے پہلے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا کہ اب یا تو حضور ﷺ تشریف لا کر ہماری توبہ کی قبولیت کا اعلان فرمائیں گے اور ہمیں اپنے دست مبارک سے کھولیں گے یا پھر ہم یہیں بندھے بندھے اپنی جانیں دے دیں گے۔ حضور ﷺ کی واپسی پر یہ آیات نازل ہوئیں تو آپ ﷺ نے تشریف لے جا کر انہیں کھولا اور خوشخبری سنائی کہ ان کی توبہ قبول ہوگئی ہے۔ توبہ کرنے اور توبہ کی قبولیت کا یہ وہی اصول تھا جو ہم سورة النساء میں پڑھ آئے ہیں : اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓءِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْہِمْط وَکَان اللّٰہُ عَلِیْماً حَکِیْماً یعنی کوئی غلطی یا کوتاہی سرزد ہونے کے فوراً بعد انسان کے اندر ایمانی جذبات لوٹ آئیں ‘ اسے احساس ندامت ہو اور وہ توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ نے ایسی توبہ کو قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے۔ مگر ان اصحاب رض کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ ان کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں خصوصی حکم نازل ہوا۔