At-Tawba • UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
﴿ ٱلَّذِينَ يَلْمِزُونَ ٱلْمُطَّوِّعِينَ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ فِى ٱلصَّدَقَٰتِ وَٱلَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ ٱللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾
“[It is these hypocrites] who find fault with such of the believers as give for the sake of God more than they are duty-bound to give, as well as with, such as find nothing [to give] beyond [the meagre fruits of] their toil, and who scoff at them [all]. God will cause their scoffing to rebound on themselves. and grievous suffering awaits them.”
آیت 79 اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ جب رسول اللہ ﷺ نے تبوک کی مہم کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی تو مسلمانوں کی طرف سے ایثار اور اخلاص کے عجیب و غریب مظاہر دیکھنے میں آئے۔ ابو عقیل رض ایک انصاری صحابی تھے ‘ ان کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے رات بھر ایک یہودی کے ہاں مزدوری کی اور ساری رات کنویں سے پانی نکال نکال کر اس کے باغ کو سیراب کرتے رہے۔ صبح انہیں مزدوری کے طور پر کچھ کھجوریں ملیں۔ انہوں نے ان میں سے آدھی کھجوریں تو گھر میں بچوں کے لیے چھوڑدیں اور باقی آدھی حضور ﷺ کی خدمت میں لا کر پیش کردیں۔ آپ ﷺ اس صحابی کے خلوص و اخلاص اور حسن عمل سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ کھجوریں سب مال و اسباب پر بھاری ہیں۔ لہٰذا آپ ﷺ کی ہدایت کے مطابق انہیں سامان کے پورے ڈھیر کے اوپر پھیلا دیا گیا۔ لیکن وہاں جو منافقین تھے انہوں نے حضرت ابو عقیل رض کا مذاق اڑایا اور فقرے کسے کہ جی ہاں ‘ کیا کہنے ! بہت بڑی قربانی دی ہے ! ان کھجوروں کے بغیر تو یہ مہم کامیاب ہو ہی نہیں سکتی تھی ‘ وغیرہ وغیرہ۔