slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الليل

(Al-Lail) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ

📘 آیت 1{ وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی۔ } ”قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لیتی ہے۔“ یعنی تمام چیزوں پر تاریکی کا پردہ ڈال دیتی ہے۔

فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ

📘 آیت 10{ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی۔ } ”تو اس کو ہم رفتہ رفتہ مشکل منزل جہنم تک پہنچا دیں گے۔“ یہ ہیں انسانی کوشش اور مشقت کے دو رخ۔ گویا پہلی تین شرائط کو اپنانے کا راستہ صدیقین اور شہداء کا راستہ ہے۔ اگر کسی نے کوشش کی لیکن وہ مذکورہ تینوں شرائط کو کماحقہ پورا نہ کرسکا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوشش اور اخلاص کے مطابق ہوگا۔ لیکن جس بدقسمت شخص کی کوشش اور محنت میں ان تینوں اوصاف کا فقدان ہوا اور وہ ان کے مقابلے میں عمر بھر دوسرے راستے بخل ‘ استغناء اور تکذیب پر گامزن رہا ‘ ظاہر ہے اس کا شمار ان بدترین لوگوں کے گروہ میں ہوگا جس کے سرغنہ ابولہب اور ابوجہل ہیں۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیجیے کہ ابوجہل کے مقابلے میں ابولہب کا کردار کہیں زیادہ گھٹیا اور مذموم تھا ‘ بلکہ قرآن مجید نے جس انداز میں اس کی مذمت کی ہے اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے گروہ کا بدترین فرد تھا۔ بزدلی ‘ بخیلی اور حد سے بڑھی ہوئی خود غرضی اس کے کردار کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ اس کے بخل اور مال کو سینت سینت کر رکھنے کا ذکر سورة اللہب میں بھی آیا ہے۔ اس کی بزدلی اور خودغرضی کا پول اس وقت کھلا جب اس کے سامنے اپنے ”دین“ کے لیے جنگ کرنے کا مرحلہ آیا ‘ اس وقت اس نے اپنی جگہ کرائے کے دو سپاہیوں کو لڑنے کے لیے بھیج دیا۔ اس کے مقابلے میں ابوجہل صاف گو ‘ بہادر اور اپنے نظریے پر مرمٹنے والا شخص تھا۔ چناچہ اس نے اپنے باطل دین کی خاطر بڑے فخر سے گردن کٹوائی۔ انگریزی کی مثل ہے : " give the devil his due" یعنی شیطان کے کردار میں بھی اگر کوئی مثبت خصوصیت ہو تو اس کے اعتراف میں کوئی حرج نہیں۔ ظاہر ہے اس کی شخصیت میں آخر کوئی تو خوبی تھی جس کی بنا پر حضور ﷺ نے اپنی خصوصی دعا میں اسے اور حضرت عمر رض کو ایک ہی پلڑے میں رکھا تھا۔ حضور ﷺ نے تو ان دونوں شخصیات کے لیے برابر کی دعا کی تھی کہ اے اللہ ! عمر بن الخطاب اور عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کو میری جھولی میں ڈال دے ! حضور ﷺ کی اس دعا کی روشنی میں تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ابوجہل ایمان لے آتا تو وہ حضرت عمر رض کے پائے کا مسلمان ہوتا ‘ نہ کہ عبداللہ بن ابی کے کردار والا مسلمان۔ بہرحال ان آیات میں انسان کی کامیابی اور ناکامی کے معیار اور اوصاف کی واضح طور پر نشاندہی کردی گئی ہے۔ جو انسان اپنی سیرت و شخصیت کی بنیاد پہلے تین اوصاف بحوالہ آیت 5 اور 6 پر رکھے گا وہ ان شاء اللہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا اور جو آخری تین اوصاف بحوالہ آیت 8 اور 9 کا انتخاب کرے گا وہ بدترین خلائق قرارپائے گا۔

وَمَا يُغْنِي عَنْهُ مَالُهُ إِذَا تَرَدَّىٰ

📘 آیت 10{ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی۔ } ”تو اس کو ہم رفتہ رفتہ مشکل منزل جہنم تک پہنچا دیں گے۔“ یہ ہیں انسانی کوشش اور مشقت کے دو رخ۔ گویا پہلی تین شرائط کو اپنانے کا راستہ صدیقین اور شہداء کا راستہ ہے۔ اگر کسی نے کوشش کی لیکن وہ مذکورہ تینوں شرائط کو کماحقہ پورا نہ کرسکا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوشش اور اخلاص کے مطابق ہوگا۔ لیکن جس بدقسمت شخص کی کوشش اور محنت میں ان تینوں اوصاف کا فقدان ہوا اور وہ ان کے مقابلے میں عمر بھر دوسرے راستے بخل ‘ استغناء اور تکذیب پر گامزن رہا ‘ ظاہر ہے اس کا شمار ان بدترین لوگوں کے گروہ میں ہوگا جس کے سرغنہ ابولہب اور ابوجہل ہیں۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیجیے کہ ابوجہل کے مقابلے میں ابولہب کا کردار کہیں زیادہ گھٹیا اور مذموم تھا ‘ بلکہ قرآن مجید نے جس انداز میں اس کی مذمت کی ہے اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے گروہ کا بدترین فرد تھا۔ بزدلی ‘ بخیلی اور حد سے بڑھی ہوئی خود غرضی اس کے کردار کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ اس کے بخل اور مال کو سینت سینت کر رکھنے کا ذکر سورة اللہب میں بھی آیا ہے۔ اس کی بزدلی اور خودغرضی کا پول اس وقت کھلا جب اس کے سامنے اپنے ”دین“ کے لیے جنگ کرنے کا مرحلہ آیا ‘ اس وقت اس نے اپنی جگہ کرائے کے دو سپاہیوں کو لڑنے کے لیے بھیج دیا۔ اس کے مقابلے میں ابوجہل صاف گو ‘ بہادر اور اپنے نظریے پر مرمٹنے والا شخص تھا۔ چناچہ اس نے اپنے باطل دین کی خاطر بڑے فخر سے گردن کٹوائی۔ انگریزی کی مثل ہے : " give the devil his due" یعنی شیطان کے کردار میں بھی اگر کوئی مثبت خصوصیت ہو تو اس کے اعتراف میں کوئی حرج نہیں۔ ظاہر ہے اس کی شخصیت میں آخر کوئی تو خوبی تھی جس کی بنا پر حضور ﷺ نے اپنی خصوصی دعا میں اسے اور حضرت عمر رض کو ایک ہی پلڑے میں رکھا تھا۔ حضور ﷺ نے تو ان دونوں شخصیات کے لیے برابر کی دعا کی تھی کہ اے اللہ ! عمر بن الخطاب اور عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کو میری جھولی میں ڈال دے ! حضور ﷺ کی اس دعا کی روشنی میں تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ابوجہل ایمان لے آتا تو وہ حضرت عمر رض کے پائے کا مسلمان ہوتا ‘ نہ کہ عبداللہ بن ابی کے کردار والا مسلمان۔ بہرحال ان آیات میں انسان کی کامیابی اور ناکامی کے معیار اور اوصاف کی واضح طور پر نشاندہی کردی گئی ہے۔ جو انسان اپنی سیرت و شخصیت کی بنیاد پہلے تین اوصاف بحوالہ آیت 5 اور 6 پر رکھے گا وہ ان شاء اللہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا اور جو آخری تین اوصاف بحوالہ آیت 8 اور 9 کا انتخاب کرے گا وہ بدترین خلائق قرارپائے گا۔

إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَىٰ

📘 آیت 12{ اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰی۔ } ”دیکھو انسانو ! یقینا ہمارے ذمے ہے ہدایت پہنچا دینا۔“ اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ بہت اہم آیت ہے۔ اس میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے کہ انسان کو سیدھا راستہ دکھانا اور ”ہدایت“ اس تک پہنچانا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو جبلی ہدایت بھی عطا کی ہے ‘ اس کے نفس کے اندراخلاقی حس بھی الہام کردی ہے۔ اس کے اندر اپنی روح بھی پھونکی ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور محبت کی امین ہے اور پھر اس ہدایت و معرفت کی تکمیل کے لیے اس نے دنیا میں پیغمبر بھی بھیجے اور کتابیں بھی نازل کیں۔ گویا اللہ تعالیٰ نے کئی ذرائع سے انسان کو راہ ہدایت دکھانے کا اہتمام فرما دیا ہے۔

وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولَىٰ

📘 آیت 13{ وَاِنَّ لَـنَا لَلْاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی۔ } ”اور ہمارے ہی لیے ہے اختیار آخرت کا بھی اور دنیا کا بھی۔“ ظاہر ہے آخرت میں اللہ تعالیٰ ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ کون انسان کامیاب ہوا ہے اور کون ناکام رہا ہے۔ اور دنیا میں بھی وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی قوم اب اس کی زمین پر بوجھ بننے جا رہی ہے اور اس طرح کے کس بوجھ سے کس وقت اس نے زمین کو آزاد کرنا ہے۔ گزشتہ سورت سورۃ الشمس میں قوم ثمود کے بارے میں اللہ کے ایسے ہی ایک فیصلے کا ذکر ہم بایں الفاظ پڑھ آئے ہیں : { فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْبِہِمْ فَسَوّٰٹہَا۔ } ”تو الٹ دیا ان پر عذاب ان کے رب نے ان کے گناہ کی پاداش میں اور سب کو برابر کردیا“۔ یعنی جب اس قوم کے پاس اللہ تعالیٰ کا رسول علیہ السلام واضح نشانیوں کے ساتھ آگیا ‘ پھر اللہ کے رسول علیہ السلام نے اللہ کا پیغام پہنچا کر اور اپنے کردار و عمل کا نمونہ پیش کر کے اس قوم پر اتمامِ حجت کردیا۔ اس کے بعد بھی جب وہ قوم کفر اور سرکشی پر اڑی رہی تو انہیں ایسے ملیامیٹ کردیا گیا جیسے کسی باغ کی صفائی کے لیے اس کا ساراکوڑا کرکٹ جمع کر کے اسے آگ لگا دی جاتی ہے۔

فَأَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّىٰ

📘 آیت 14{ فَاَنْذَرْتُکُمْ نَارًا تَلَظّٰی۔ } ”دیکھو ! میں نے تمہیں خبردار کردیا ہے بھڑکتی ہوئی آگ سے۔“ جہنم تو بھوکے شیر کی طرح اپنے شکار کی تاک میں ہے : { نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی - تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰی۔ } المعارج ”وہ کلیجوں کو کھینچ لے گی۔ وہ پکارے گی ہر اس شخص کو جس نے پیٹھ موڑ لی تھی اور رخ پھیرلیا تھا۔“

لَا يَصْلَاهَا إِلَّا الْأَشْقَى

📘 آیت 15{ لَا یَصْلٰـٹہَآ اِلَّا الْاَشْقَی۔ } ”نہیں پڑے گا اس میں مگر وہ جو انتہائی بدبخت ہے۔“ ظاہر ہے جس انسان کو آخری رسول ﷺ کے آجانے کے بعد بھی حقیقت نظر نہ آئی اس سے بڑا بدبخت اور کون ہوسکتا ہے اور اس سے زیادہ جہنم کے گڑھے میں گرنے کا مستحق کون ہوسکتا ہے ؟ کیونکہ اگر کوئی شخص اندھیرے میں یا کم روشنی میں ٹھوکر کھاجائے تو اس کی ٹھوکر کا پھر بھی کچھ نہ کچھ جواز بنتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص دن کی روشنی میں اس وقت راستہ پہچاننے سے انکار کر دے جب سورج نصف النہار پر چمک رہا ہو تو ظاہر ہے اس کے لیے وہ خود ہی قصور وار ہوگا۔

الَّذِي كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ

📘 آیت 15{ لَا یَصْلٰـٹہَآ اِلَّا الْاَشْقَی۔ } ”نہیں پڑے گا اس میں مگر وہ جو انتہائی بدبخت ہے۔“ ظاہر ہے جس انسان کو آخری رسول ﷺ کے آجانے کے بعد بھی حقیقت نظر نہ آئی اس سے بڑا بدبخت اور کون ہوسکتا ہے اور اس سے زیادہ جہنم کے گڑھے میں گرنے کا مستحق کون ہوسکتا ہے ؟ کیونکہ اگر کوئی شخص اندھیرے میں یا کم روشنی میں ٹھوکر کھاجائے تو اس کی ٹھوکر کا پھر بھی کچھ نہ کچھ جواز بنتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص دن کی روشنی میں اس وقت راستہ پہچاننے سے انکار کر دے جب سورج نصف النہار پر چمک رہا ہو تو ظاہر ہے اس کے لیے وہ خود ہی قصور وار ہوگا۔

وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى

📘 آیت 17{ وَسَیُجَنَّـبُـہَا الْاَتْقَی۔ } ”اور بچالیا جائے گا اس سے جو انتہائی متقی ہے۔“ اس آیت کے بارے میں تقریباً تمام مفسرین متفق ہیں کہ اس کے مصداق حضرت ابوبکر صدیق رض ہیں۔ کیونکہ قبل ازیں آیت 5 اور 6 میں جن تین اوصاف کا ذکر ہوا ہے وہ اس امت کی جس شخصیت میں بتمام و کمال نظر آتے ہیں وہ حضرت ابوبکر صدیق رض کی شخصیت ہے۔ ”تصدیق بالحسنی“ کے حوالے سے آپ رض کے بارے میں خود حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ میں نے جس کسی کو بھی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ توقف ضرور کیا ‘ سوائے ابوبکر رض کے۔ ان رض کے سامنے جونہی میں نے اپنی نبوت کا ذکر کیا وہ فوراً مجھ پر ایمان لے آئے۔ آپ رض کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ زمانہ جاہلیت میں بھی آپ رض توحیدپر کاربند اور بت پرستی سے دور رہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے میں بھی آپ رض کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ آپ رض نے کئی نادار خاندانوں کی کفالت مستقل طور پر اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ مکہ کے بہت سے غلاموں اور لونڈیوں کو آپ رض نے منہ مانگی قیمت میں خرید کر آزاد کرایا تھا اور غزوئہ تبوک کے موقع پر تو آپ رض نے اپنا پورا اثاثہ لا کر حضور ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا تھا۔ غرض مذکورہ تینوں اوصاف بدرجہ اتم امت کے َمردوں میں آپ رض کی شخصیت میں ‘ جبکہ خواتین میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رض کی شخصیت میں پائے جاتے ہیں۔

الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ

📘 آیت 18{ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَـہٗ یَتَزَکّٰی۔ } ”جو اپنا مال دیتا ہے اپنے نفس کو پاک کرنے کے لیے۔“ یعنی مال خرچ کرتے ہوئے دنیاداری کا کوئی مفاد اس کے پیش نظر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رض نے حضرت بلال رض کو آزاد کرانے کے لیے امیہ بن خلف کو جب منہ مانگی قیمت ادا کی تو اس پر امیہ خود بھی حیران رہ گیا۔ دوسری طرف حضرت ابوبکر رض کے والد حضرت ابوقحافہ رض آپ رض فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے نے بھی آپ رض سے گلہ کیا کہ اتنی بڑی رقم تم نے کسی طاقتور غلام پر کیوں نہ خرچ کی جو تمہارے کام بھی آتا ! اس زمانے میں اگر کوئی شخص کسی غلام کو آزاد کراتا تھا تو وہ غلام زندگی بھر اسی شخصیت کے حوالے سے پہچاناجاتا تھا اور اخلاقی لحاظ سے بھی وہ اس کے تابع رہتا تھا۔ عرب رواج کے مطابق ایسے آزاد کردہ غلام کو متعلقہ شخصیت کا مولیٰ کہا جاتا تھا ‘ جیسے حضرت زید بن حارثہ رض اور حضرت ثوبان رض حضور ﷺ کے مولیٰ تھے۔ بہرحال مال خرچ کرنے کا یہ فلسفہ ان لوگوں کی سمجھ سے بالا ہے جن کی نظر ہر وقت دنیا کے مفادات پر رہتی ہے۔

وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَىٰ

📘 آیت 18{ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَـہٗ یَتَزَکّٰی۔ } ”جو اپنا مال دیتا ہے اپنے نفس کو پاک کرنے کے لیے۔“ یعنی مال خرچ کرتے ہوئے دنیاداری کا کوئی مفاد اس کے پیش نظر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رض نے حضرت بلال رض کو آزاد کرانے کے لیے امیہ بن خلف کو جب منہ مانگی قیمت ادا کی تو اس پر امیہ خود بھی حیران رہ گیا۔ دوسری طرف حضرت ابوبکر رض کے والد حضرت ابوقحافہ رض آپ رض فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے نے بھی آپ رض سے گلہ کیا کہ اتنی بڑی رقم تم نے کسی طاقتور غلام پر کیوں نہ خرچ کی جو تمہارے کام بھی آتا ! اس زمانے میں اگر کوئی شخص کسی غلام کو آزاد کراتا تھا تو وہ غلام زندگی بھر اسی شخصیت کے حوالے سے پہچاناجاتا تھا اور اخلاقی لحاظ سے بھی وہ اس کے تابع رہتا تھا۔ عرب رواج کے مطابق ایسے آزاد کردہ غلام کو متعلقہ شخصیت کا مولیٰ کہا جاتا تھا ‘ جیسے حضرت زید بن حارثہ رض اور حضرت ثوبان رض حضور ﷺ کے مولیٰ تھے۔ بہرحال مال خرچ کرنے کا یہ فلسفہ ان لوگوں کی سمجھ سے بالا ہے جن کی نظر ہر وقت دنیا کے مفادات پر رہتی ہے۔

وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ

📘 آیت 2{ وَالنَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی۔ } ”اور قسم ہے دن کی جب وہ روشن ہوجاتا ہے۔“ رات اور دن اللہ تعالیٰ کی آفاقی نشانیوں میں سے ہیں ‘ جبکہ اگلی قسم کا تعلق انسان کی ذات اللہ تعالیٰ کی انفسی نشانیوں سے ہے۔

إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَىٰ

📘 آیت 18{ الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَـہٗ یَتَزَکّٰی۔ } ”جو اپنا مال دیتا ہے اپنے نفس کو پاک کرنے کے لیے۔“ یعنی مال خرچ کرتے ہوئے دنیاداری کا کوئی مفاد اس کے پیش نظر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیق رض نے حضرت بلال رض کو آزاد کرانے کے لیے امیہ بن خلف کو جب منہ مانگی قیمت ادا کی تو اس پر امیہ خود بھی حیران رہ گیا۔ دوسری طرف حضرت ابوبکر رض کے والد حضرت ابوقحافہ رض آپ رض فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے نے بھی آپ رض سے گلہ کیا کہ اتنی بڑی رقم تم نے کسی طاقتور غلام پر کیوں نہ خرچ کی جو تمہارے کام بھی آتا ! اس زمانے میں اگر کوئی شخص کسی غلام کو آزاد کراتا تھا تو وہ غلام زندگی بھر اسی شخصیت کے حوالے سے پہچاناجاتا تھا اور اخلاقی لحاظ سے بھی وہ اس کے تابع رہتا تھا۔ عرب رواج کے مطابق ایسے آزاد کردہ غلام کو متعلقہ شخصیت کا مولیٰ کہا جاتا تھا ‘ جیسے حضرت زید بن حارثہ رض اور حضرت ثوبان رض حضور ﷺ کے مولیٰ تھے۔ بہرحال مال خرچ کرنے کا یہ فلسفہ ان لوگوں کی سمجھ سے بالا ہے جن کی نظر ہر وقت دنیا کے مفادات پر رہتی ہے۔

وَلَسَوْفَ يَرْضَىٰ

📘 آیت 21{ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی۔ } ”اور وہ عنقریب راضی ہوجائے گا۔“ یہاں پر یَرْضٰی کی ضمیر کا اشارہ بیک وقت اللہ تعالیٰ کی طرف بھی ہے اور اس شخصیت کی طرف بھی جس کی صفات کا ذکر ان آیات میں ہو رہا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوجائے گا اور ابوبکر صدیق رض بھی راضی ہوجائیں گے۔ گویا یہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ جیسی بشارت ہے کہ اگر اللہ کا یہ بندہ اپنا مال صرف اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے لٹارہا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس سے راضی ہوجائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو آخرت میں اتنا کچھ عطا کرے گا کہ وہ بھی خوش ہوجائے گا۔ یہاں یہ اہم نکتہ بھی نوٹ کر لیجیے کہ معنوی اعتبار سے اس آیت کا اگلی سورت سورۃ الضحیٰ کی آیت 5 کے ساتھ خصوصی ربط وتعلق ہے جس کی وضاحت سورة الضحیٰ کے مطالعہ کے دوران کی جائے گی۔ یہاں پر زیر مطالعہ سورتوں سورۃ الشمس ‘ سورة اللیل ‘ سورة الضحیٰ اور سورة الانشراح کے مرکزی مضمون کے اہم نکات ایک دفعہ پھر اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے۔ سورة الشمس کی ابتدائی آٹھ آیات قسموں پر مشتمل ہیں۔ اس کے بعد مقسم علیہ کے طور پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نفس انسانی کے اندر نیکی اور بدی کا شعور ودیعت کردیا گیا ہے ‘ اور پھر اس کے بعد دو آیات میں اس حوالے سے کامیابی اور ناکامی کا معیار بھی بتادیا گیا ہے : { قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰٹہَا - وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰٹہَا۔ } کہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا وہ کامیاب ٹھہرا اور جس نے اسے مٹی میں دفن کردیا وہ ناکام ہوگیا۔ اگلی سورت یعنی سورة اللیل میں نفس کو سنوارنے اور بگاڑنے کے طریقوں یا راستوں کے بارے میں مزید وضاحت کردی گئی ہے کہ جو انسان اعطائے مال ‘ تقویٰ اور تصدیق بالحسنیٰ کے اوصاف اپنائے گا وہ صدیقیت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے پر گامزن ہوجائے گا۔ اس کے برعکس بخل ‘ استغناء حلال و حرام اور جائز و ناجائز سے متعلق لاپرواہی اور حق کی تکذیب کی راہ پر چلنے والا انسان بالآخر خود کو جہنم کے گڑھے میں گرائے گا۔ پھر کامیابی کے راستے کی مثال کے طور پر امت کی ایک ایسی شخصیت کی طرف اشارہ بھی کردیا گیا جسے پہلے تین اوصاف کو اپنانے کے باعث اعلیٰ مدارج و مراتب سے نوازا گیا۔ لیکن ظاہر ہے اس منزل کا بلند ترین مقام تو محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے مختص ہے جو معراجِ انسانیت ہیں۔ چناچہ اس مضمون کے حوالے سے اب اگلی دو سورتوں کا تعلق خصوصی طور پر حضور ﷺ کی ذات اقدس سے ہے۔ اسی نسبت سے ان سورتوں کا مطالعہ سیرت النبی ﷺ کے بعض پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے بھی مفید ہے۔ متقدمین میں سے تصوف کا ذوق رکھنے والے اکثر مفسرین نے ان سورتوں میں بعض باطنی حقائق کی نشاندہی بھی کی ہے۔ متعلقہ آیات کے مطالعہ کے دوران جہاں جس حد تک ممکن ہوا ایسے کچھ نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ ظاہر ہے موجودہ دور کے ”عقلیت پسند“ مفسرین نہ تو تصوف کا ذوق رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں ایسے موضوعات سے دلچسپی ہے۔ الا ماشاء اللہ !

وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَىٰ

📘 آیت 3{ وَمَاخَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰٓی۔ } ”اور قسم ہے اس کی جو اس نے پیدا کیے نر اور مادہ۔“ ان قسموں سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ کائنات کے اندر نظر آنے والے تضادات دراصل نظام کائنات کا حصہ ہیں ‘ بلکہ کائنات کا نظام انہی تضادات کی وجہ سے چل رہا ہے اور ایک جنس سے تعلق رکھنے والی دو متضاد چیزیں باہم مل کر فطرت کے تقاضوں کی تکمیل کرتی ہیں۔ دنیا کا سارا نظام دن اور رات کے ادلنے بدلنے کی وجہ سے قائم ہے۔ زمین پر حیوانی اور نباتاتی زندگی کا وجود اسی گردش لیل و نہار کا مرہون منت ہے۔ خود نسل انسانی کا تسلسل بھی مرد اور عورت کے جنسی اختلاف و تضاد کی وجہ سے چل رہا ہے۔ چناچہ کائنات کی مختلف تخلیقات میں بظاہر نظر آنے والے ان تضادات کے اندر بھی ایک طرح کا توافق اور تطابق پایاجاتا ہے۔

إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّىٰ

📘 آیت 4{ اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی۔ } ”بیشک تمہاری کوشش الگ الگ ہے۔“ یعنی جس طرح کائنات کی باقی چیزوں میں اختلاف و تضاد پایا جاتا ہے اسی طرح تمہارے مختلف افراد کی کوششوں اور محنتوں کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ ظاہر ہے زندگی کے شب و روز میں محنت ‘ مشقت اور بھاگ دوڑ کرنا تو انسان کا مقدر ہے : { لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ۔ } البلد ”بیشک ہم نے انسان کو پیدا ہی محنت اور مشقت میں کیا ہے“۔ ہر انسان اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کے لیے بھی مشقت کرتا ہے۔ پھر اگر وہ کسی نظریے کا پیروکار ہے تو اس نظریے کی اشاعت اور سربلندی کے لیے بھی تگ و دو کرتا ہے اور اس نظریے کے تحت ایک نظام کے قیام کے لیے بھی جدوجہد کرتا ہے۔ غرض اپنے اپنے ماحول اور حالات کے مطابق محنت اور مشقت تو سب انسان ہی کرتے ہیں لیکن ان کی مشقتوں کے نتائج مختلف ہوتے ہیں۔ ایک شخص اپنی محنت کے نتیجے میں جنت خرید لیتا ہے اور دوسرا اپنی محنت و مشقت کی پاداش میں خود کو دوزخ کا مستحق بنالیتا ہے۔ انسانی محنت میں اس فرق کی وضاحت حضور ﷺ کی اس حدیث میں ملتی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْ فَبَائِِعٌ نَفْسَہٗ فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا 1 ”ہر شخص روزانہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ اپنی جان کا سودا کرتا ہے ‘ پھر یا تو وہ اسے آزاد کرا لیتا ہے یا اسے تباہ کر بیٹھتا ہے“۔ کوئی اپنی جسمانی قوت کا سودا کرتا ہے ‘ کوئی ذہنی صلاحیت بیچتا ہے ‘ کوئی اپنی مہارت نیلام کرتا ہے ‘ کوئی اپنا وقت فروخت کرتا ہے۔ غرض اپنے اپنے طریقے اور اپنے اپنے انداز میں ہر شخص دن بھر خود کو بیچتا ہے۔ اب ان میں سے ایک شخص وہ ہے جس نے خود کو بیچتے ہوئے حلال کو مدنظر رکھا ‘ اس نے جھوٹ نہیں بولا ‘ کسی کو دھوکہ نہیں دیا ‘ کم معاوضہ قبول کرلیا لیکن حرام سے اجتناب کیا۔ ایسا شخص شام کو لوٹے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے شامل حال ہوگی۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرے شخص نے بھی دن بھر مشقت کی ‘ مگر حلال و حرام کی تمیز سے بےنیاز ہو کر ‘ معاوضہ اس نے بھی لیامگر غلط بیانی کرکے اور دوسروں کو فریب دے کر ‘ ناپ تول میں کمی کر کے اور گھٹیا چیز کو بڑھیا چیز کے دام پر بیچ کر۔ اب یہ شخص جب شام کو گھر آئے گا تو جہنم کے انگاروں کی گٹھڑی اٹھائے ہوئے آئے گا۔ اب آئندہ آیات میں انسانی زندگی کے دو راستوں میں سے ہر راستے کے تین اوصاف یا تین سنگ ہائے میل کی نشاندہی کردی گئی ہے ‘ تاکہ ہر شخص کو معلوم ہوجائے کہ اس نے کون سا راستہ اختیار کیا ہے ‘ اس راستے پر اب وہ کس مقام پر ہے اور اگر وہ مزید آگے بڑھے گا تو آگے کون سی منزل اس کی منتظر ہوگی۔ اس مضمون کے اعتبار سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ قرآن مجید کی اہم ترین سورت ہے۔ اب ملاحظہ ہوں ان میں سے پہلے راستے کے تین اوصاف :

فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ

📘 آیت 5{ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی۔ } ”تو جس نے عطا کیا اور تقویٰ اختیار کیا۔“ ظاہر ہے یہ خیر کا راستہ ہے اور اس راستے کا پہلا وصف یا پہلا سنگ میل ”اِعطاء“ یا انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ سورة البلد میں اس عمل کو انسان کے لیے ایک بہت مشکل گھاٹی قرار دے کر اس کی وضاحت یوں فرمائی گئی : { فَکُّ رَقَـبَۃٍ - اَوْ اِطْعٰـمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَـبَۃٍ - یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ - اَوْ مِسْکِیْنًا ذَا مَتْرَبَۃٍ - ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا…} ”کسی گردن کا چھڑا دینا۔ یا کھانا کھلا دینا بھوک کے دن ‘ اس یتیم کو کہ جو قرابت دار بھی ہے ‘ یا اس محتاج کو جو مٹی میں رُل رہا ہے۔ پھر وہ شامل ہوا ان لوگوں میں جو ایمان لائے…“ یعنی جو انسان اس ”مشکل گھاٹی“ کو عبور کرنے کے بعد اہل ایمان کی صف میں شامل ہوگا وہ ان شاء اللہ ابوبکر صدیق ‘ عمر فاروق ‘ عثمان غنی اور علی مرتضیٰ - کا پیروکار بنے گا۔ لیکن جس نے یہ امتحان پاس کیے بغیر ہی کلمہ پڑھ لیا تو اس کے بارے میں خدشہ ہے کہ توحید و رسالت کی گواہی دینے کے بعد بھی اس کے ایمان کی بوباس عبداللہ بن ابی کے ایمان کی سی ہوگی۔ ظاہر ہے جو کلمہ حضرت ابوبکر ‘ حضرت عمر ‘ حضرت عثمان اور حضرت علی - نے پڑھا تھا وہی کلمہ عبداللہ بن ابی نے بھی پڑھا تھا۔ یعنی ایمان کا بیج تو دونوں طرف ایک سا تھا ‘ مگر یہ زمین اور تھی ‘ وہ زمین اور تھی۔ اس زمین میں انفاق فی سبیل اللہ کا ہل چل چکا تھا اور اس زمین میں ُ حب ِدنیا اور شکوک و تردّد کے جھاڑ جھنکاڑ نے قبضہ جما رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عبداللہ بن ابی کے دل کی زمین میں ایمان کے بیج کا جمائو ممکن ہی نہ ہوا۔ اس حوالے سے اگر سورة آل عمران کی آیت 92 کے اس جملے کو مدنظر رکھا جائے تو انفاق و اِعطاء کے اس فلسفے کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے : { لَــنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَط } یعنی جب تک تم لوگ اپنی عزیز ترین چیز کو اللہ کی راہ میں نہ دے ڈالو تم نیکی کی گردکو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہیے تو مال کی قربانی دو اور قربانی بھی بہترین چیز کی۔ یہ نہیں کہ چھانٹ کر بےکار چیزیں کسی کو دے کر سمجھو کہ تم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہے۔ اس راستے کا دوسر اوصف یا سنگ میل تقویٰ وَاتَّقٰی ہے۔ یعنی انسان کا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرتے رہنا۔ ہر لمحہ برائی کی خاردار جھاڑیوں سے اپنا دامن بچانے کی فکر میں رہنا اور مسلسل کوشش کرتے رہنا کہ میں کسی کا دل نہ دکھائوں اور کسی کا حق نہ ماروں۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ وہ اخلاقی حس زندہ و بیدار ہو جس کا ذکر سورة الشمس کی آیت { فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰٹہَا۔ } میں آیا ہے۔ اگر اس کی اخلاقی حس کی شمع ہوا و ہوس کے طوفان کی نذر ہوچکی ہو تو پھر ظاہر ہے کہاں کا تقویٰ اور کس کا ڈر !

وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ

📘 آیت 6{ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی۔ } ”اور اس نے تصدیق کی اچھی بات کی۔“ یہ خیر کے راستے کی تیسری شرط یا اس کا تیسرا وصف ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھلائی اور حق کی کوئی بات انسان کے سامنے آئے اور اس کا دل گواہی دے دے کہ ہاں یہ بات حق ہے تو وہ بلاتردّد اس کی تصدیق کردے۔ یعنی وہ بھلائی ‘ سچائی اور حق کی تصدیق کرنے کے لیے عواقب و نتائج کی پروا نہ کرے۔ حق کو حق جان کر اس کی تصدیق و توثیق کے لیے سود و زیاں کا ترازو نصب کر کے نہ بیٹھ جائے اور نہ ہی اس حوالے سے اپنی انا کو آڑے آنے دے۔ جیسے کہ ہماری روز مرہ کی زندگی میں اکثر ہوتا ہے کہ دو آدمیوں کی بحث کے دوران ایک آدمی پر واضح ہوجاتا ہے کہ دوسرے کی بات درست ہے مگر وہ صرف اپنی انا کی وجہ سے اس کے موقف کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ

📘 آیت 7{ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی۔ } ”تو اس کو ہم رفتہ رفتہ آسان منزل جنت تک پہنچادیں گے۔“ اس حوالے سے سورة الاعلیٰ کی یہ آیت بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے : { وَنُیَسِّرُکَ لِلْیُسْرٰی۔ } ”اور ہم رفتہ رفتہ پہنچائیں گے آپ کو آسان منزل تک“۔ لیکن سورة الاعلیٰ کی نسبت یہاں یہ مضمون زیادہ واضح انداز میں آیا ہے۔ اب اس کے مقابلے میں اگلی آیات میں دوسرے راستے اور اس کے تین سنگ ہائے میل کا ذکر آ رہا ہے :

وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَىٰ

📘 آیت 8{ وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ } ”اور جس نے بخل کیا“ پہلی تین خصوصیات کی ترتیب ذہن میں رکھیے اور نوٹ کیجیے کہ ”اِعطاء“ کے مقابلے میں یہاں بخل آگیا ہے۔ { وَاسْتَغْنٰی۔ } ”اور بےپروائی اختیار کی۔“ بھلائی اور خیر کے راستے کی تین خصوصیات میں اعطاء کے بعد تقویٰ یعنی پھونک پھونک کر قدم رکھنے اور ذمہ داری کے احساس کا بیان تھا۔ اس کے مقابلے یہاں لاابالی پن ‘ لاپرواہی اور بےنیازی استغناء کا تذکرہ ہے۔ گویا ایک شخص حلال و حرام کی تمیز سے ناآشنا اور نیکی و بدی کے تصور سے بیگانہ اپنی دھن میں مست چلا جا رہا ہے۔ کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کی بلا سے ‘ کسی کی عزت پر حرف آتا ہے تو آتا رہے ‘ کسی کے جان و مال کی حرمت پامال ہوتی ہے تو بھی پروا نہیں ! غرض اپنی سوچ ہے ‘ اپنی مرضی ہے اور اپنے کام سے کام ہے : ؎دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے !

وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَىٰ

📘 آیت 9{ وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی۔ } ”اور جھٹلا دیا اچھی بات کو۔“ یعنی اس کے دل نے گواہی دے دی کہ یہ سچ اور حق بات ہے لیکن اس کے باوجود اس نے تعصب یا تکبر یا ہٹ دھرمی یا مفاد یا کسی خوف کی وجہ سے اسے جھٹلا دیا۔ واضح رہے اس آیت کا تقابل آیت 6 وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی۔ کے ساتھ ہے۔