Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًۭا مِّنَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴾
“Thus, do not invoke, side by side with God, anything that can neither benefit thee nor harm thee: for, behold, if thou do it, thou wilt surely be among the evildoers!”
داعی اولاً دلیل کی زبان میں اپنی بات کہتاہے۔ مگر جب لوگ دلیل سننے کے باوجود شک وشبہ میں پڑے رہتے ہیں تو اس کے پاس آخری چیز یہ رہ جاتی ہے کہ عزم کی زبان میں اپنے پیغام کی صداقت کا اظہار کردے۔ توحید کے داعی کا شرک کے پرستاروں سے یہ کہنا کہ ’’میں اس کی عبادت نہیںکرتا جس کی عبادت تم لوگ کرتے ہو‘‘ محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک دلیل بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ— میں بھی تمھارے جیسا ایک انسان ہوں۔ میرے پاس بھی وہی عقل ہے جو تمھارے پاس ہے۔ پھر جس بات کی صداقت میری سمجھ میں آرہی ہے اس کی صداقت تمھاری سمجھ میں آخر کیوں نہیں آتی۔ سچائی اگر ایک انسان کی سطح پر قابل فہم ہوجائے تو اس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی قابلِ فہم تھی۔ اس کے باوجود اگر دوسرے لوگ انکار کریں تو یقیناً اس کی وجہ خود ان کا اپنا کوئی نقص ہوگا، نہ کہ دعوت حق کا نقص۔ جس چیز کو ایک آنکھ والا دیکھ رہا ہو اور دوسرا آنکھ والا شخص اسے نہ دیکھے تو وہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آنکھ والا حقیقۃً آنکھ والا نہیں۔ کیوں کہ اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ جس چیز کو ایک آنکھ والا دیکھ لے اس کو دوسرا شخص آنکھ رکھتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔ موت اس بات کا اعلان ہے کہ آدمی اس دنیا میں کامل طورپر بے اختیار ہے۔ موت ان تمام چیزوں کو باطل ثابت کردیتی ہے جن کے سہارے آدمی انکار اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتاہے۔ موت ایک طرف آدمی کو اپنے عجز اور دوسری طرف خدا کی قدرت کا تعارف کراتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ ا س دنیا میں کوئی نہیں جس کو نفع دینے یا نقصان پہنچانے کا اختیار حاصل ہو۔ اس طرح موت آدمی کو ہر دوسری چیز سے کاٹ کر خدا کی طرف لے جاتی ہے۔ وہ مکمل طور پر انسان کو خدا کا پرستار بناتی ہے۔ اگر آدمی کے اندر سبق لینے کا ذہن ہو تو صرف موت کا واقعہ اس کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔ ہر انسان پر ایک وقت آتاہے جب کہ وہ بے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو موت کے حوالے کردیتاہے۔ اسی طرح کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ فائدہ اور نقصان کے معاملہ میں وہی ہونے دے جو وہ چاہتاہے۔ وہ مطلوب فائدہ کو ہر حال میں پالے اور غیر مطلوب نقصان سے ہر حال میں محفوظ رہے۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ انسان ایک بے اختیار مخلوق ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں کوئی اور بھی ہے جو اس کے اوپر حکمرانی کررہا ہے۔