Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ قُلْ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنِ ٱهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِۦ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَآ أَنَا۠ عَلَيْكُم بِوَكِيلٍۢ ﴾
“SAY [O Prophet]: "O mankind! The truth from your Sustainer has now come unto you. Whoever, therefore, chooses to follow the right path, follows it but for his own good; and whoever chooses to go astray, goes but astray to his own hurt. And I am not responsible for your conduct."”
دعوت کا کام اصلاً اعلانِ حق کا کام ہے۔ کسی گروہ کے اوپر اس وقت پیغام رسانی کا حق ادا ہوجاتاہے جب کہ داعی امر حق کو دلیل کے ذریعہ پوری طرح واضح کردے اور اسی کے ساتھ اس بات کا ثبوت دے دے کہ وہ اس معاملہ میں پوری طرح سنجیدہ ہے۔داعی اگر وقت کے معیار کے مطابق امر حق کو مدلّل کردے۔ وہ نفع نقصان سے بے نیاز ہو کر حق کی مکمل گواہی دے دے۔ وہ ہر تکلیف اور ناخوش گواری کو برداشت کرتا ہوا اپنے دعوتی کام کو جاری رکھے تو اس کے بعد مخاطب کے اوپر وہ اتمام حجت ہوجاتا ہے جس کے بعد خدا کے یہاں کسی کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ داعی کا کام اصلاً اتباعِ وحی ہے۔ یعنی اپنی ذات کی حد تک عملاً مرضیٔ رب پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کو مرضیٔ رب کی طرف پکارتے رہنا۔ اس کام کو ہر حال میں حکمت اور صبر اور خیر خواہی کے ساتھ مسلسل جاری رکھنا ہے۔ اس کے بعد جتنے بقیہ مراحل ہیں وہ سب براہِ راست طورپر خدا سے متعلق ہیں۔ داعی کی طرف سے کوئی دوسرا عملی اقدام صرف اس وقت درست ہے جب کہ خود خدا کی طرف سے اس کا فیصلہ کیا جاچکا ہو اور اس کے آثار ظاہر ہوجائیں۔ خدا کا فیصلہ ہمیشہ حالات کے روپ میں ظاہر ہوتاہے، جب خدا کے علم میں داعی کا دعوتی کام مطلوب حدکو پہنچ چکا ہوتا ہے تو خدا حالات میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے جس کو استعمال کرکے داعی اپنے عمل کے اگلے مرحلہ میں داخل ہوجائے۔