Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا ٱلْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا۟ ۙ وَجَآءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَٰتِ وَمَا كَانُوا۟ لِيُؤْمِنُوا۟ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلْقَوْمَ ٱلْمُجْرِمِينَ ﴾
“And, indeed, We destroyed before your time [whole] generations when they [persistently] did evil although the apostles sent unto them brought them all evidence of the truth; for they refused to believe [them]. Thus do We requite people who are lost in sin.”
’’پیغمبر اپنی قوموں کے پاس بینات کے ساتھ آئے مگر انھوں نے نہ مانا‘‘۔ بینہ جمع بینات کے معنی دلیل کے ہیں، اس سے معلوم ہوتاہے کہ خدا کا داعی ہمیشہ بینات کی بنیاد پر اٹھتا ہے۔لوگوں کو اسے دلائل کی سطح پر پہچاننا پڑتاہے۔ جو لوگ ظاہری عظمتوں اور عوامی استقبالیوں میں خداکے داعی کو پانا چاہیں وہ کبھی اس کو نہیں پائیں گے، کیونکہ خدا کا داعی وہاں موجود نہیں ہوتا۔ نبی معجزہ دکھاتاہے۔ مگر معجزہ آخری مرحلہ میں اتمام حجت کے ليے آتاہے، دعوتی مرحلہ میں سارا کام دلائل کی بنیاد پر ہوتاہے۔ کسی شخص یا گروہ کا ظالم ہونا یہ ہے کہ وہ دلیل کے روپ میں ظاہر ہونے والی دعوت خداوندی کو نہ پہچانے اور اپنے خود ساختہ معیار پر نہ پانے کی وجہ سے اس کا انکار کردے۔ ایسے لوگ اپنی اس روش کی وجہ سے خدائی قانون کی زد میں آجاتے ہیں۔ ماضی کی جن قوموں پر انکار نبوت کے جرم میں خدا کا عذاب نازل ہوا وہ سرے سے نبوت کی منکر نہ تھیں۔یہ تمام قومیں کسی نہ کسی سابق پیغمبر کو مانتی تھیں۔ البتہ انھوں نے وقت کے پیغمبر کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ پچھلے پیغمبر کا معاملہ یہ تھا کہ اس کی پشت پر تاریخ کی تصدیقات قائم ہوگئی تھیں اور قومی عصبیتیں اس کے ساتھ وابستہ ہوچکی تھیں۔ جب کہ معاصر پیغمبر ابھی اس قسم کی اضافی خصوصیات سے خالی تھا۔ انھوں نے اس گزرے ہوئے پیغمبر کا اقرار کیا جو نسلوں کی روایات کے نتیجہ میں ان کا قومی پیغمبر بن چکا تھا، جس کے ساتھ اپنے کو منسوب کرنا تاریخی عظمت کے مینار سے اپنے کو منسوب کرنے کے ہم معنی تھا۔ انھوںنے اپنے قومی پیغمبر کو پیغمبر مانا مگر اس پیغمبر کا انکار کردیا جس کو صرف دلیل اور برہان کے ذریعہ جانا جاسکتا تھا۔ یہ جرم خدا کی نظر میں اتنا شدید تھا کہ وہ لوگ نبی کے منکر قرار دے کر ہلاک کرديے گئے۔ ’’پھر ہم نے اس کے بعد تم کو ملک میں خلیفہ بنایا‘‘۔ خلیفہ کے اصل معنی ہیں بعد کو آنے والا۔ یہ لفظ جانشین، خاص طورپر، اقتدار میں جانشین کے لیے بولا جاتاہے۔ یہ جانشینی انسان کی ہوتی ہے، نہ کہ خدا کی۔ کوئی انسان اقتدار میں خدا کا جانشین نہیں ہوسکتا۔انسان ہمیشہ کسی مخلوق کا جانشین ہوتاہے۔ قرآن میں جہاں بھی خلافت کا لفظ آیا ہے وہ مخلوق کی جانشینی کے لیے ہے، نہ کہ خدا کی جانشینی کے لیے۔ کسی کو خلیفہ (جانشین) بنانا اعزاز کے لیے نہیں بلکہ صرف امتحان کے لیے ہوتاہے۔ جانشین بنانے کا مطلب ایک کے بعد دوسرے کو کام کا موقع دینا ہے، ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو امتحان کے میدان میں کھڑا کرنا ہے۔ جیسے ہندستان میں دیسی راجاؤں کی جگہ مغلوں کو اختیا ردیا گیا۔ پھر ان کو ہٹا کر انگریز ان کے جانشین بنائے گئے۔ اس کے بعد انھیں ملک سے نکال کر اکثریتی فرقہ کے لیے جگہ خالی کی گئی۔ ان میں سے ہر بعد کو آنے والا اپنے پہلے کا خلیفہ تھا۔