slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 15 من سورة سُورَةُ يُونُسَ

Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ءَايَاتُنَا بَيِّنَٰتٍۢ ۙ قَالَ ٱلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَآءَنَا ٱئْتِ بِقُرْءَانٍ غَيْرِ هَٰذَآ أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِىٓ أَنْ أُبَدِّلَهُۥ مِن تِلْقَآئِ نَفْسِىٓ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَىَّ ۖ إِنِّىٓ أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّى عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍۢ ﴾

“AND [thus it is:] whenever Our messages are conveyed unto them in all their clarity, those who do not believe that they are destined to meet Us [are wont to] say, "Bring us a discourse other than this, or alter this one.” Say [O Prophet]: "It is not conceivable that I should alter it of my own volition; I only follow what is revealed to me. Behold, I would dread, were I [thus] to rebel against my Sustainer, the suffering [which would befall me] on that awesome Day [of Judgment]!"”

📝 التفسير:

مکہ کے قریش خدااور رسول کو مانتے تھے۔ وہ اپنے کو ملّت ابراہیمی کا پیرو کہتے تھے۔ حتی کہ اسلام کی بہت سی دینی اصطلاحیں مثلاً صلاۃ، صوم، زکوٰۃ، حج وغیرہ وہی ہیں جو پہلے سے ان کے یہاں رائج تھیں۔ اس کے باوجود کیوں انھوں نے کہا کہ دوسرا قرآن لاؤ یا اس قرآن میں کچھ ترمیم کردو تب ہم اس کو مانیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن میں خدا کے خالص دین کا اعلان تھا۔ جب کہ قریش خدا کے دین کے نام پر ایک ملاوٹی دین کو اختیار كيے ہوئے تھے۔ قرآن کی توحید سے ان کے مشرکانہ عقیدۂ خدا پر زد پڑتی تھی۔ قرآن کے تصور عبادت کی روشنی میں ان کی عبادتیں محض کھیل تماشا معلوم ہوتی تھیں۔ وہ پیغمبر کو اپنے قومی فخر کا نشان بنائے ہوئے تھے اور قرآن اُن سے ایک ایسے پیغمبر کو ماننے کا مطالبہ کررہا تھا جو ان کی عملی زندگی میں رہنما کا درجہ حاصل کرلے۔ انھوں نے کعبہ کی خدمت کو اپنی دین داری کا سب سے بڑا ثبوت سمجھ رکھا تھا جب کہ قرآن نے بتایا کہ دین داری یہ ہے کہ آدمی خدا سے ڈرے اور جو کچھ کرے آخرت کو سامنے رکھ کر کرے۔ آدمی چند الفاظ بول کر حق کو نظر انداز کردیتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دل میں ’’کھٹکا‘‘ نہیں ہوتا۔ اگر آدمی کے دل میں یہ کھٹکا لگاہوا ہو کہ وہ اپنے قول وفعل کے لیے خدا کے یہاں جواب دہ ہے تو وہ فوراً سنجیدہ ہوجائے گا۔ اور جو شخص سنجیدہ ہو وہ معاملہ کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھے گا، وہ سرسری طورپر اس کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔