Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَيَقُولُونَ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ ءَايَةٌۭ مِّن رَّبِّهِۦ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا ٱلْغَيْبُ لِلَّهِ فَٱنتَظِرُوٓا۟ إِنِّى مَعَكُم مِّنَ ٱلْمُنتَظِرِينَ ﴾
“NOW THEY [who deny the truth] are wont to ask, "Why has no miraculous sign ever been bestowed upon him from on high by his Sustainer?" Say, then: "God's alone is the knowledge of that which. is beyond the reach of human perception. Wait, then, [until His will becomes manifest:] verily, I shall wait with you!"”
مکہ کے لوگ جب مسلسل انکار کی روش پر قائم رہے تو خدا نے ان پر قحط بھیجا جو سات سال مسلسل رہا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد ختم ہوا۔ یہ ایک نشانی تھی جس سے انھیں یہ سبق لینا چاہیے تھا کہ رسول کا انکار کرنے کے بعد وہ خدائی پکڑ کی زد میں آجائیں گے۔ مگر ان کا حال یہ ہوا کہ جب تک قحط رہا الحاح وزاری کرتے رہے اور جب قحط رخصت ہوا تو کہنے لگے کہ یہ تو زمانہ کی گردشیں ہیں جو ہرایک کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ اس کارسول کو ماننے یا نہ ماننے سے کوئی تعلق نہیں۔ پیغمبر سے لوگ نشانی مانگتے ہیں ۔ مگر اصل سوال نشانی کے ظہور کا نہیں بلکہ اس سے سبق لینے کا ہے۔ کیوں کہ نشانی صرف دیکھنے کے لیے ہوتی ہے وہ مجبور کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ نشانی ظاہر ہونے کے بعد بھی یہ آدمی کے اپنے اختیار میں ہوتاہے کہ وہ اس کو مانے یا کوئی جھوٹی توجیہہ نکال کر اسے رد کردے۔ تاہم جب خدا کی آخری نشانی ظاہر ہوتی ہے تو اس کے مقابلہ میں انسان کو کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ یہ آخری نشانی اتمام حجت کے بعد خدا کی عدالت بن کر آتی ہے اور وہ مختلف پیغمبر وںکے لیے مختلف صورتوں میں آتی ہے۔ پیغمبر آخرالزماں کے لیے مختلف مصلحتوں کی بنا پر یہ نشانی اس صورت میں ظاہر ہوئی کہ منکرین کو مغلوب کرکے مومنین کو ان کے اوپر غالب کردیاگیا۔ شاہ عبد القادر صاحب اس سلسلہ میں موضح القرآن میں لکھتے ہیں ’’یعنی اگر کہیں کہ ہم کیسے جانیں کہ تمھاری بات سچ ہے۔ فرمایا کہ آگے حق تعالی اس دین کو روشن کرے گا اور مخالف ذلیل اور برباد ہوجائیں گے۔ سو ویسا ہی ہوا۔ سچ کی نشانی ایک بار کافی ہے۔ اور ہر بار مخالف ذلیل ہوںتو فیصلہ ہوجائے۔ حالاں کہ فیصلہ کا دن دنیا میں نہیں‘‘۔ آدمی جب سرکشی کرتاہے اور اس کی وجہ سے اس کا کچھ بگڑتاہوا نظر نہیں آتا تو وہ اور بھی زیادہ ڈھیٹ ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کی پکڑ سے باہر ہے۔ حالانکہ یہ عین خدا کی تدبیر ہوتی ہے۔ خدا سرکش آدمی کو ڈھیل دیتاہے تاکہ وہ بے فکر ہو کر خوب سرکشی کرے۔ اور اس سرکشی کے دوران خدا کے کارندے پردہ میں رہ کر خاموشی کے ساتھ اس کے تمام اقوال وافعال کو لکھتے رهتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب اس کا وقت پورا ہوجاتا ہے تو اچانک موت کا فرشتہ ظاہر ہو کر اس کو پکڑ لیتاہے تاکہ اس کو اس کے اعمال کا حساب دینے کے ليے خدا کے سامنے حاضر کردے۔