Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ هُوَ ٱلَّذِى يُسَيِّرُكُمْ فِى ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰٓ إِذَا كُنتُمْ فِى ٱلْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍۢ طَيِّبَةٍۢ وَفَرِحُوا۟ بِهَا جَآءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌۭ وَجَآءَهُمُ ٱلْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍۢ وَظَنُّوٓا۟ أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِۦ لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّٰكِرِينَ ﴾
“He it is who enables you to travel on land and sea. And [behold what happens] when you go to sea in ships: [they go to sea in ships,] and they sail on in them in a favourable wind, and they rejoice thereat until there comes upon them a tempest, and waves surge towards them from all sides, so that they believe themselves to be encompassed [by death; and then] they call unto God, [at that moment] sincere in their faith in Him alone, "If Thou wilt but save us from this, we shall most certainly be among the grateful!"”
انسان ایک بے حد حساس وجود ہے۔ وہ تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان پر جب تکلیف کا کوئی لمحہ آتا ہے تو وہ فوراً سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن سے تمام مصنوعی پردے ہٹ جاتے ہیں۔ فکر کے لمحات میں آدمی اس حقیقت کا اعتراف کرلیتاہے جس کا اعتراف کرنے کے لیے وہ بے فکری کے لمحات میں تیار نہ ہوتا تھا۔ اس کی ایک مثال سمندر کا سفر ہے۔ سمندر میں سکون ہو اور کشتی منزل کی طرف رواں ہو تو اس کے مسافروں کے لیے یہ بڑا خوش گوار لمحہ ہوتاہے۔ اس وقت ان کے اندر ایک جھوٹا اعتماد پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کا معاملہ درست ہے، اب اس کو کوئی بگاڑنے والا نہیں۔ اس کے بعد سمندری ہوائیں ا ٹھتی ہیں۔ پہاڑ جیسی موجیں مسافروں کو چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں۔ ان کے درمیان بڑے سے بڑا جہاز بھی معمولی تنکے کی طرح ہچکولے کھانے لگتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ اب ہلاکت کے سوا دوسرا کوئی انجام نہیں۔ اس وقت خدا کے منکرخدا کا اقرار کرلیتے ہیں۔ دیوتاؤں کو پوجنے والے خدائے واحد کو پکارنا شروع کردیتے ہیں۔ اپنی قوت اور اپنی تدبیر پر بھروسہ کرنے والے ہر دوسری چیز کو چھوڑ کر صرف خدا کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ یہ ایک تجرباتی ثبوت ہے کہ توحید ایک فطری عقیدہ ہے۔ توحید کے سوا دوسرے تمام عقیدے بالکل بے بنیاد ہیں۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ خدا کو نہ ماننے کے لیے آدمی خواہ کتنا ہی فلسفہ پیش کرے، حقیقۃً اس قسم کی تمام باتیں بے فکری کی نظریہ سازی ہیں۔ انسان اگر جانے کہ دنیا کے مواقع محض وقتی طورپر اس کو امتحان کے لیے ديے گئےہیں تو وہ فوراً سنجیدہ ہوجائے۔ اس کے ذہن سے تمام مصنوعی دیواریں گر جائیں اور ایک خدا کو ماننے کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ نہ رہے۔ وہ وقت آنے والا ہے جب انسان خدا کے جلال کو دیکھ کر کانپ اٹھے اور تمام خدائی باتوں کا اقرار کرنے پر مجبور ہوجائے۔ مگر عقل مند وہ ہے جو موجودہ زندگی کے تجربات میںآنے والی زندگی کی حقیقتوں کو دیکھ لے اور آج ہی اس بات کو مان لے جس کو وہ کل ماننے پر مجبور ہوگا۔ مگر کل کا ماننا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔