slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 23 من سورة سُورَةُ يُونُسَ

Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ فَلَمَّآ أَنجَىٰهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِى ٱلْأَرْضِ بِغَيْرِ ٱلْحَقِّ ۗ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰٓ أَنفُسِكُم ۖ مَّتَٰعَ ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴾

“Yet as soon as He has saved them from this [danger], lo! they behave outrageously on earth, offending against all right! O men! All your outrageous deeds are bound to fall back upon your own selves! [You care only for] the enjoyment of life in this world: [but remember that] in the end unto Us you must return, whereupon We shall make you truly understand all that you were doing [in life].”

📝 التفسير:

انسان ایک بے حد حساس وجود ہے۔ وہ تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان پر جب تکلیف کا کوئی لمحہ آتا ہے تو وہ فوراً سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن سے تمام مصنوعی پردے ہٹ جاتے ہیں۔ فکر کے لمحات میں آدمی اس حقیقت کا اعتراف کرلیتاہے جس کا اعتراف کرنے کے لیے وہ بے فکری کے لمحات میں تیار نہ ہوتا تھا۔ اس کی ایک مثال سمندر کا سفر ہے۔ سمندر میں سکون ہو اور کشتی منزل کی طرف رواں ہو تو اس کے مسافروں کے لیے یہ بڑا خوش گوار لمحہ ہوتاہے۔ اس وقت ان کے اندر ایک جھوٹا اعتماد پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کا معاملہ درست ہے، اب اس کو کوئی بگاڑنے والا نہیں۔ اس کے بعد سمندری ہوائیں ا ٹھتی ہیں۔ پہاڑ جیسی موجیں مسافروں کو چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں۔ ان کے درمیان بڑے سے بڑا جہاز بھی معمولی تنکے کی طرح ہچکولے کھانے لگتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ اب ہلاکت کے سوا دوسرا کوئی انجام نہیں۔ اس وقت خدا کے منکرخدا کا اقرار کرلیتے ہیں۔ دیوتاؤں کو پوجنے والے خدائے واحد کو پکارنا شروع کردیتے ہیں۔ اپنی قوت اور اپنی تدبیر پر بھروسہ کرنے والے ہر دوسری چیز کو چھوڑ کر صرف خدا کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ یہ ایک تجرباتی ثبوت ہے کہ توحید ایک فطری عقیدہ ہے۔ توحید کے سوا دوسرے تمام عقیدے بالکل بے بنیاد ہیں۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ خدا کو نہ ماننے کے لیے آدمی خواہ کتنا ہی فلسفہ پیش کرے، حقیقۃً اس قسم کی تمام باتیں بے فکری کی نظریہ سازی ہیں۔ انسان اگر جانے کہ دنیا کے مواقع محض وقتی طورپر اس کو امتحان کے لیے ديے گئےہیں تو وہ فوراً سنجیدہ ہوجائے۔ اس کے ذہن سے تمام مصنوعی دیواریں گر جائیں اور ایک خدا کو ماننے کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ نہ رہے۔ وہ وقت آنے والا ہے جب انسان خدا کے جلال کو دیکھ کر کانپ اٹھے اور تمام خدائی باتوں کا اقرار کرنے پر مجبور ہوجائے۔ مگر عقل مند وہ ہے جو موجودہ زندگی کے تجربات میںآنے والی زندگی کی حقیقتوں کو دیکھ لے اور آج ہی اس بات کو مان لے جس کو وہ کل ماننے پر مجبور ہوگا۔ مگر کل کا ماننا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔