Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍۢ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ إِذْنِهِۦ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ فَٱعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ﴾
“VERILY, your Sustainer is God, who has created the heavens and the earth in six aeons, and is established on the throne of His almightiness, governing all that exists. There is none that could intercede with Him unless He grants leave therefor. Thus is God, your Sustainer: worship, therefore, Him [alone]: will you not, then, keep this in mind?”
کائنات میں مختلف قسم کی چیزیں ہیں۔ علمی مطالعہ بتاتا ہے کہ ان چیزوں کا ظہور بیک وقت نہیں ہوا بلکہ تدریج کے ساتھ ایک کے بعد ایک ہوا ہے۔ قرآن اس تدریجی تخلیق کو چھ ادوار (periods) میں تقسیم کرتا ہے۔ یہ دَوری تخلیق ثابت کرتی ہے کہ کائنات کی پیدائش شعوری منصوبہ کے تحت ہوئی ہے۔ پھر کائنات کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کا نظام حد درجہ محکم قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ ہر چیز ٹھیک اسی طرح عمل کرتی ہے جس طرح مجموعی تقاضے کے تحت اسے عمل کرنا چاہيے۔ یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کارخانہ کائنات کا ایک زندہ مدبر ہے جو ہر لمحہ اس کا انتظام کررہا ہے۔ کائنات کا یہ حیران کن نظام خود ہی پکار رہاہے کہ اس کا مالک اتنا کامل اور اتنا عظیم ہے جس کے یہاں کسی سفارشی کی سفارش چلنے کا کوئی سوال نہیں۔ کائنات اپنی خصوصیات کے آئینہ میں اپنے خالق کی خصوصیات کو بتارہی ہے۔ ساری کائنات میں ’’قسط‘‘ کا نظام قائم ہے۔ یہاں ہر ایک کے ساتھ یہ ہورہا ہے کہ جو کچھ وہ کرتاہے اسی کے مطابق نتیجہ اس کے سامنے آتاہے۔ ہر ایک کو وہی ملتاہے جو اس نے کیا تھا اور ہر ایک سے وہ چھن جاتا ہے جس کے لیے اس نے نہیں کیا تھا۔ زمین کا جو حصہ رات کے اسباب جمع کرے وہاں تاریکی پھیل کر رہتی ہے اور زمین کا جو حصہ روشنی کے اسباب پیدا کرے اس کے اوپر روشن سورج چمک کر رہتاہے۔ یہ مادی نتائج کا حال ہے۔ مگر اخلاقی نتائج کے معاملہ میں دنیا کی تصویر بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ انسان نیکی کرتا ہے اور اس کو نیکی کا پھل نہیں ملتا۔ انسان سرکشی کرتا ہے مگر اس کی سرکشی اپنا نتیجہ دکھائے بغیر جاری رہتی ہے۔ خالق کی جو مرضی اس کی دوسری مخلوقات میں چل رہی ہے اس کی وہی مرضی انسان کے معاملات میں کیوں ظاہر نہیں ہوتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں خدائی انصاف کے ظہور کو خدا نے بعد کو آنے والی دنیا کے ليے موخر کردیا ہے۔ پہلی زندگی انسان کو عمل کے لیے دی گئی ہے، دوسری زندگی اس کو اپنے عمل کا نتیجہ پانے کے لیے دی جائے گی۔ اور دوسری زندگی کا ظہور یقیناً اتنا ہی ممکن ہے جتنا پہلی زندگی کا ظہور۔