Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ هُنَالِكَ تَبْلُوا۟ كُلُّ نَفْسٍۢ مَّآ أَسْلَفَتْ ۚ وَرُدُّوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ مَوْلَىٰهُمُ ٱلْحَقِّ ۖ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا۟ يَفْتَرُونَ ﴾
“There and then will every human being clearly apprehend what he has done in the past; and all will be brought back unto God, their true Lord Supreme, and all their false imagery will have forsaken them.”
شرک کا پورا کاروبار جھوٹی امیدوں پر قائم ہوتاہے، وہ واقعات جو خداکے كيے سے ہورہے ہیں ان کو آدمی جھوٹے معبودوں کی طرف منسوب کردیتاہے اور اس طرح خود ساختہ تصور کے تحت ان کو اپنی عقیدت وپرستش کا مرکز بنا لیتاہے۔ اپنے ان معبودوں پر اس کا اعتماد اتنا بڑھتا ہے کہ وہ سمجھ لیتاہے کہ آخرت میں بھی وہ ضرور خدا کے مقابلہ میں اس کے مدد گار بن جائیں گے، اور اس کو خدا کی پکڑ سے بچالیں گے۔ یہ سراسر جھوٹی امیدیں ہیں۔ مگر دنیا کی زندگی میں ان کا جھوٹ ہونا ظاہر نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں امتحان کی وجہ سے ہر چیز پر غیب کا پردہ پڑا ہواہے۔ یہاں آدمی کو موقع ہے کہ وہ واقعات کو اپنے فرضی معبودوں کی طرف منسوب کرے اور اس طرح ان کی معبودیت پر مطمئن ہوجائے۔ مگر آخرت میں ساری حقیقتیں کھل جائیں گی۔ وہاں معلوم ہوگا کہ اس کائنات میں ایک خدا کے سواکسی کو کوئی زور حاصل نہ تھا۔ موجودہ دنیا میں آدمی اس خوش فہمی میں جی رہا ہے کہ وہ اپنے بڑوں یا اپنے معبودوں کی مدد سے آخرت کے مرحلے میں کامیاب ہوجائے گا۔ مگر آخرت میں اچانک اس پر کھلے گا کہ اس کا اعتماد سراسر جھوٹا تھا۔ یہاں کسی کو صرف وہی ملے گا جو اس نے خود کیا تھا۔ فرضی سہارے وہاں اس طرح غائب ہوجائیں گے جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔