Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ ٱلظَّنَّ لَا يُغْنِى مِنَ ٱلْحَقِّ شَيْـًٔا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌۢ بِمَا يَفْعَلُونَ ﴾
“For, most of them follow nothing but conjecture: [and,] behold, conjecture can never be a substitute for truth. Verily, God has full knowledge of all that they do.”
اللہ کے سوا جن کو خدائی کا مقام دیا جاتاہے، خواہ وہ انسان ہوں یا غیر انسان، کوئی بھی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ کسی غیر موجود کو موجود کردے۔ یہ صرف اللہ ہے جس کے لیے تخلیق کا عمل ثابت ہے۔ اور جب تخلیق کا عمل ایک بار اللہ کے لیے ثابت ہے تو اسی سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ وہ اس کا اعادہ کرسکتاہے اور کرے گا۔ پھر جب وجود اول اور وجود ثانی دونوں کا اختیار صرف ایک اللہ کو ہے تو دوسرے شریکوں کی طرف توجہ لگانا بالکل عبث ہے۔ ان سے آدمی نہ اپنی پہلی زندگی میں کچھ پانے والا ہے اور نہ دوسری زندگی میں۔ یہی معاملہ رہنمائی کا ہے۔ ’’اللہ رہنمائی کرتا ہے‘‘ یہ چیز پیغمبروں کی ہدایت سے ثابت ہے۔ پیغمبروں نے جس ہدایت کو خدائی ہدایت کہہ کر انسان کے سامنے پیش کیا وہ مسلّم طورپر ایک ہدایت ہے۔ اس کے برعکس، شریکوں کا حال یہ ہے کہ وہ یا تو سرے سے اس قابل نہیں کہ وہ انسان کو حق اور ناحق کے بارے میں کوئی علم دیں (مثلاً بت) یا وہ اپنی کمیوں اور محدودیتوں کی وجہ سے خود رہنمائی کے محتاج ہیں، کجا کہ وہ دوسروں کو کوئی واقعی رہنمائی فراہم کریں (مثلاً انسانی معبود)، جب صورت حال یہ ہے تو انسان کو صرف ایک خداکی طرف رجوع کرنا چاہیے، نہ کہ فرضی شریکوں کی طرف۔ شرک کا کاروبار کسی واقعی علم پر قائم نہیں ہے بلکہ وہ مفروضات اور قیاسات پر قائم ہے۔ کچھ ہستیوں کے بارے میں بے بنیاد طورپر یہ رائے قائم کر لی گئی ہے کہ وہ خدائی صفات کے حامل ہیں۔ حالاں کہ اتنی بڑی رائے کسی حقیقی علم کی بنیاد پر قائم کی جاسکتی ہے ،نہ کہ محض اٹکل اور قیاس کی بنیاد پر۔