Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ ذُوقُوا۟ عَذَابَ ٱلْخُلْدِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا بِمَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ ﴾
“-whereupon those who [in their lifetime] were bent on evildoing will be told, `Taste suffering abiding! Is this requital anything but the just due for what you were wont to do?"”
انسان موجودہ دنیامیں اپنے کو آزاد پاتاہے۔ وہ بظاہر دیکھتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے، کوئی اس کو پکڑنے والا نہیں، کوئی اس کو سزا دینے والا نہیں۔ یہ صورت حال اس کو بھلاوے میں ڈال دیتی ہے۔ حتی کہ خدا کا داعی جب اس کو اس کے عمل کے انجام سے ڈراتاہے تو وہ خدا کے داعی کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ وہ کہتا ہے — ہماری سرکشی پر تم جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ کب پوری ہوگی۔ اس قسم کی باتوں کا سبب نادانی کے سوا اور کچھ نہیں۔کیوں کہ یہ پکڑ خود داعیٔ حق کی طرف سے نہیں آنے والی ہے بلکہ خدا کی طرف سے آنے والی ہے۔ اور خدا ہر آن اپنی دنیا میں بتارہا ہے کہ اس کا طریقہ جلدی کا طریقہ نہیں۔ کشتی میں سوراخ ہو اور کوئی ملاح اس کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی کشتی کو دریا میں ڈال دے تو خدا کا لازمی قانون ہے کہ ایسی کشتی پانی میں ڈوب جائے۔ مگر ایسی کشتی فوراً پانی میں نہیں ڈوبتی بلکہ خدا کی سنت کے مطابق اپنے مقرر وقت پر ڈوبتی ہے۔ اس قسم کی مثالیں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں جو انسان کو خدائی سنت کا تعارف کرارہی ہیں مگر ان کو دیکھنے کے باوجود وہ کہتا ہے کہ اگر ان اعمال پر خدا کا عذاب ہے تو وہ عذاب جلد کیوں نہیں آجاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خدا کی پکڑ کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ زلزلہ اور طوفان خدائی واقعات ہیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ جب معاملہ خدا اور انسان کے درمیان ہو تو فیصلہ کا اختیار تمام تر صرف فریقِ اول کو ہوتا ہے۔ مگرانسان اس پہلو پر غور نہیں کرتا۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ خدا کا قانون فوراً حرکت میں نہیں آرہا ہے اور چونکہ وہ فوراً حرکت میں نہیں آتا اس لیے وہ غفلت میں پڑا رہتاہے۔ مگر جب خدا کا فیصلہ آئے گا تو اس وقت انسان اپنے کو بے بس پاکر سب کچھ مان لے گا۔ حالاں کہ اس وقت کا ماننا کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ عمل کا انجام پانے کا وقت ہوگا، نہ کہ عمل کرنے کا۔