Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍۢ ظَلَمَتْ مَا فِى ٱلْأَرْضِ لَٱفْتَدَتْ بِهِۦ ۗ وَأَسَرُّوا۟ ٱلنَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا۟ ٱلْعَذَابَ ۖ وَقُضِىَ بَيْنَهُم بِٱلْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴾
“And all human beings that have been doing evil's would surely, if they possessed all that is on earth, offer it as ransom [on Judgment Day]; and when they see the suffering [that awaits them], they will be unable to express their remorse. But judgment will be passed on them in all equity; and they will not be wronged.”
عرب کے لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر تم نے اپنی اصلاح نہ کی تو تم کو آخرت کا عذاب پکڑ لے گا۔ اس کے جواب میںوہ آپ کی بات کا مذاق اڑانے لگے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ آخرت کے منکر تھے۔ وہ دراصل پیغمبر اسلام کی تنبیہ کو بے وزن سمجھ رہے تھے، نہ کہ نفس آخرت کو۔ پیغمبر اسلام کی عظمت اس وقت تک مسلّم نہ ہوئی تھی۔ اس وقت آپ کے مخاطبین آپ کو ایک معمولی انسان کے روپ میں دیکھتے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ایسے معمولی انسان کی بات نہ ماننے سے ان کے اوپر خدا کا عذاب کیسے آجائے گا۔ انھیں آپ کے نمائندۂ خدا ہونے پر شک تھا، نہ کہ خود خدا اور آخرت پر۔ یہ تقابل حقیقۃً اقرار آخرت اور انکار آخرت کے درمیان نہ تھا۔ بلکہ بڑی شخصیت کے دین اور چھوٹی شخصیت کے دین کے درمیان تھا۔ وہ ماضی کے مشہور بزرگوں کے ساتھ اپنے کو منسوب کرتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو مسلّمہ شخصیتوں کے دین پر سمجھتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں جب وہ سامنے کے پیغمبر کو دیکھتے تو وہ ان کو ایک معمولی انسان کے روپ میں نظر آتا۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ تاریخ کی جن بڑی بڑی شخصیتوں کے ساتھ وہ اپنے کو وابستہ کیے ہوئے ہیں، ان سے وابستگی ان کے لیے باعث نجات نہ ہو۔ بلکہ نجات کے لیے یہ ضروری ہو کہ وہ اپنے آپ کو اس شخص کے ساتھ وابستہ کریں جس کو بظاہر کوئی تقدس اور عظمت حاصل نہیں۔ یہی وہ نفسیات تھی جس کی وجہ سے ان کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ آپ کا مذاق اڑائیں۔ آدمی ایک حساس مخلوق ہے۔ وہ تکلیف کو برداشت نہیںکرسکتا۔ دنیا میں جب تک اس کو عذاب کا سامنا نہیں ہے وہ حق کا مذاق اڑاتا ہے۔ وہ اس کو بے نیازی کے ساتھ ٹھکرا دیتاہے۔ مگر جب آخرت کا عذاب سامنے ہوگا تو اس پر اتنی گھبراہٹ طاری ہوگی کہ سب کچھ اس کو حقیر معلوم ہونے لگے گا۔ ساری دنیا کی دولت اور تمام دنیا کی نعمت بھی اگر اس کے پاس ہو تو عذاب کے مقابلہ میں وہ اتنی بے قیمت نظر آئے گی کہ وہ چاہے گا کہ سب کچھ دے کر صرف اتنا ہوجائے کہ وہ اس تکلیف سے نجات پاجائے۔ مگر آخرت کا مسئلہ کوئی سودے بازی کا مسئلہ نہیں۔ وہ تو اپنے كيے کا انجام بھگتنے کا مسئلہ ہے۔ زندگی اورموت کے بارے میں خدا کا جو منصوبہ ہے اس کا یہ لازمی جزء ہے۔ خدائی انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ ہو۔ اور خدائی قدرت اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ بہر حال ہو کر رہے گا۔ اس کے پیش آنے میں جو کچھ دیر ہے، وہ صرف اس مقررہ وقت کے آنے کی ہے جب کہ موجودہ امتحان کی مدت ختم ہو اور سارے انسان خدا کے یہاں اپنے آخری انجام کا فیصلہ سننے کے لیے حاضر کرديے جائیں۔