slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 68 من سورة سُورَةُ يُونُسَ

Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ قَالُوا۟ ٱتَّخَذَ ٱللَّهُ وَلَدًۭا ۗ سُبْحَٰنَهُۥ ۖ هُوَ ٱلْغَنِىُّ ۖ لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۚ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَٰنٍۭ بِهَٰذَآ ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾

“[And yet] they assert, "God has taken unto Himself a son!" Limitless is He in His glory! Self-sufficient is He: unto Him belongs all that is in the heavens and all that is on earth! No evidence whatever have you for this [assertion]! Would you ascribe unto God something which you cannot know?”

📝 التفسير:

خدا کے لیے بیٹے بیٹیاں ماننا خدا کو انسان کے اوپر قیاس کرنا ہے۔ انسان کمیوںاور محدودیتوں کا شکار ہے، اس لیے اس کو اولاد کی ضرورت ہے تاکہ ان کے ذریعے وہ اپنی کمیوں اور محدودیتوں کی تلافی کرے مگر خدا کے معاملہ میں یہ قیاس بالکل بے بنیاد ہے۔ مخلوقات کانظام خود ہی اس قسم کے خالق کی تردید ہے۔ مخلوقات کا عالمی نظام جس خدا کی شہادت دے رہا ہے وہ یقینی طورپر ایک ایسا خدا ہے جو اپنی ذات میں آخری حد تک کامل ہے۔ وہ ہر قسم کے عیبوں اور کمیوں سے پاک ہے۔ خدا اگر اپنی ذات میں کامل نہ ہوتا، اگر وہ عیبوں اور کمیوں والا خدا ہوتا تو کبھی وہ موجودہ کائنات جیسی کائنات کو نہیں بنا سکتا تھا اور نہ اس کو اس طرح چلا سکتا تھا جس طرح وہ انتہائی معیاری صورت میں چل رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر جس خدائے واحد کا تصور پیش کررہا ہے اس کا وجود تو زمین وآسمان کی تمام نشانیوں سے ثابت ہے۔ مگر مشرکین نے خدا کا جو تصور بنا رکھا ہے، اس کا کوئی ثبوت موجودہ کائنات میں موجود نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ بے ثبوت خدا کو ماننا خود ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ جو خدا سرے سے موجود نہ ہو وہ کیسے کسی کی مدد پر آئے گا اور کیسے کسی کو بامراد کرے گا۔جو خدا حقیقی طورپر موجود ہے، مشرکین اس کو مانتے نہیں، اور جس خدا کو مانتے ہیں اس کا کہیں وجود نہیں۔ ایسی حالت میں مشرکین موجودہ کائنات میں کیوں کر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ان کے لیے جو واحد انجام مقدر ہے وہ صرف یہ کہ بالآخر وہ بے بس اور بے سہارا ہو کر رہ جائیں اور ہمیشہ کے ليے ذلت وناکامی میں پڑے رہیں۔ موجودہ دنیا میں انکار یا شرک کا رویہ اختیار کرنے سے کسی کا کچھ بگڑتا نہیں۔ اس سے آدمی غلط فہمی میں پڑ جاتاہے۔ مگر یہ صورت حال صرف امتحان کی مہلت کی بنا پر ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو امتحان کی وجہ سے عمل کی آزادی دی گئی ہے۔ جیسے ہی امتحان کی مدت ختم ہوگی موجودہ صورت حال بھی ختم ہوجائے گی۔ اس وقت آدمی دیکھے گا کہ اس کے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں ہے جس کا وہ اپنے آپ کو مالک سمجھ کر سرکش بنا ہوا تھا۔ حدیث میںآیا ہے کہ اللہ نے عقل سے کہا ’’اے عقل، اس کائنات میں میں نے تجھ سے افضل ، تجھ سے حسین اور تجھ سے بہتر مخلوق پیدا نہیں کی‘‘۔(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 1845) انسان کو ایسی عظیم نعمت دینے کا یہ تقاضا ہے کہ اس کی ذمہ داری بھی عظیم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے نزدیک سچائی کا انکار سب سے بڑا جرم ہے۔ سچائی کو جب دلیل سے ثابت کردیا جائے تو آدمی کے اوپر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو مانے۔ عقلی طور پر ثابت شدہ ہوجانے کے بعد اگر وہ سچائی کا انکار کرتاہے تو وہ ناقابلِ معافی جرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ خدانے جب انسان کو ایسی عقل دی جس سے وہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا جان سکے تو اس کے بعد کیا چیز ہوگی جو خداکے یہاں اس کے ليے عذر بن سکے۔