Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ۞ وَٱتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِۦ يَٰقَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِى وَتَذْكِيرِى بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ فَعَلَى ٱللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوٓا۟ أَمْرَكُمْ وَشُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةًۭ ثُمَّ ٱقْضُوٓا۟ إِلَىَّ وَلَا تُنظِرُونِ ﴾
“AND CONVEY unto them the story of Noah-when he said unto his people: "O my people! If my presence [among you] and my announcement of God's messages are repugnant to you -well, in God have I placed my trust. Decide, then, upon what you are going to do [against me], and [call to your aid] those beings to whom you ascribe a share in God's divinity; and once you have chosen your course of action, let no hesitation deflect you from it; and then carry out against me [whatever you may have decided], and give me no respite!”
حضرت نوح قدیم ترین زمانہ کے رسول ہیں۔ وہ جب تک خاموش تھے، قوم ان کی عزت کرتی رہی۔ مگر جب آپ حق کے داعی بن کر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو بتانے لگے کہ ایسا کرو اور ویسا نہ کروتو وہ قوم کی نظر میں ایک ناپسندیدہ شخص بن گئے۔ یہاں تک کہ قوم نے اعلان کردیا کہ تم اپنی تبلیغ ونصیحت سے باز آؤ ورنہ ہم تم کو اپنی زمین میں نہیں رہنے دیں گے۔ حضرت نوح نے کہا کہ تم لوگ میرے معاملہ کو ایک انسان کا معاملہ سمجھتے ہو، اس لیے ایسا کہہ رہے ہو۔ مگر یہ معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ مجھ سے لڑنے کے لیے تم کو خدا سے لڑنا پڑے گا۔ تم کو اگر یقین نہ ہو تو تم اس طرح تجربہ کرسکتے ہو کہ اپنے ساتھیوں اور شریکوں کو ملا کر میرے خلاف کوئی متفقہ منصوبہ بناؤ اور اپنی تمام طاقت کے ساتھ اس کی تعمیل کر گزرو۔ تم دیکھو گے کہ میرے مقابلہ میں تمھارا ہر منصوبہ ناکام ہے۔ موجودہ دنیا میں داعی حق کی صداقت کو جانچنے کا معیار یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنا کام پورا کرکے رہتاہے۔ کوئی بھی اس کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ جو شخص خدا کی طرف سے حق کی دعوت لے کر اٹھے وہ ہمیشہ نشانی (دلیل) کے زور پر اٹھتا ہے۔ دلیل چونکہ ایک ذہنی چیز ہے اس لیے ظاہر پسند انسان اس کی عظمت کو سمجھ نہیں پاتا۔ وہ ذہنی طورپر لاجواب ہونے کے باوجود اس کے آگے جھکنے سے انکار کردیتا ہے۔ حق کے داعی کو جن آدابِ دعوت کا لازمی طورپر لحاظ کرنا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ داعی اپنے مدعو سے کسی بھی قسم کا معاشی اور مادی مطالبہ نہ کرے۔ خواہ اس یک طرفہ دست برداری کی وجہ سے اس کو کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان آخر وقت تک داعی اور مدعو کا تعلق باقی رہے، وہ کسی بھی حال میں قومی حریف اور مادی رقیب کا تعلق نہ بننے پائے۔ حضرت نوح نے جب اتمام حجت کی حد تک حق کا پیغام پہنچا دیا، پھر بھی ان کی قوم سرکشی پر قائم رہی تو سرکشوں کو سیلاب میں غرق کرکے زمین ان سے خالی کرا لی گئی اور مومنینِ نوح کو موقع دیاگیا کہ وہ زمین کے وارث بن کر اس پر آباد ہوں۔ اسی کو قرآن کی اصطلاح میں ’’خلافت‘‘ کہا جاتا ہے۔ سیلاب سے پہلے قومِ نوح زمین کی خلیفہ بنی ہوئی تھی، سیلاب کے بعد مومنین نوح زمین کے خلیفہ قرار پائے۔