Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ فَمَآ ءَامَنَ لِمُوسَىٰٓ إِلَّا ذُرِّيَّةٌۭ مِّن قَوْمِهِۦ عَلَىٰ خَوْفٍۢ مِّن فِرْعَوْنَ وَمَلَإِي۟هِمْ أَن يَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍۢ فِى ٱلْأَرْضِ وَإِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلْمُسْرِفِينَ ﴾
“But none save a few of his people declared their faith in Moses, [while others held back] for fear of Pharaoh and their great ones, lest they persecute them: for, verily, Pharaoh was mighty on earth and was, verily, of those who are given to excesses.”
نئے فکر کو قبول کرنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے معاشرہ میں نئے نئے مسائل سے دوچار ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ عمر کے لوگ اکثر کسی نئے فکر کو قبول کرنے میں محتاط ہوتے ہیں۔ مختلف وجوہ سے زیادہ عمر کے لوگوں پر مصلحت کا غلبہ ہوجاتاہے۔ وہ نئے فکر کی صحت کو ماننے کے باوجود آگے بڑھ کر اس کا ساتھ نہیںدے پاتے۔ مگر نوجوان طبقہ عام طورپر اس قسم کی مصلحتوں سے خالی ہوتاہے۔ چنانچہ ہمیشہ تاریخ میں ایسا ہوا کہ کسی نئی اور انقلابی دعوت کو قبول کرنے میں وہی لوگ زیادہ آگے بڑھے جو ابھی زیادہ عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ یہی صورتِ حال حضرت موسیٰ کے ساتھ پیش آئی۔ حضرت موسیٰ کا ساتھ دینے والے نوجوان کو ایک طرف فرعون کا خطرہ تھا۔ دوسری طرف خود اپنی قوم کے بڑوں کی طرف سے ان کو حوصلہ افزائی نہیں ملی۔ یہ بڑے اگر چہ حضرت موسیٰ کی نبوت کو مانتے تھے مگر اپنی مصلحت اندیشی کی بناپروہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے بیٹیاں پُرجوش طورپر حضرت موسی کا ساتھ دیں اور اس کے نتیجہ میں وہ فرعون کے ظلم کا شکار بنیں۔ مگر اس قسم کی صورتِ حال کا تقاضا یہ نہیں ہوتا کہ آدمی مخالفین حق کے ڈر سے خاموش ہو کر بیٹھ جائے۔ اس کو چاہیے کہ وہ انسانی مخالفتوں کے مقابلہ میں خدائی نصرتوں پر نظر رکھے، وہ خدا کے بھروسہ پر اس حق کا ساتھ دینے کے لیے اٹھ کھڑا ہو جس کا ساتھ دینے کے لیے ذاتی طور پر وہ اپنے آپ کو عاجز پارہا تھا۔