slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 88 من سورة سُورَةُ يُونُسَ

Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَآ إِنَّكَ ءَاتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُۥ زِينَةًۭ وَأَمْوَٰلًۭا فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا۟ عَن سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا ٱطْمِسْ عَلَىٰٓ أَمْوَٰلِهِمْ وَٱشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا۟ حَتَّىٰ يَرَوُا۟ ٱلْعَذَابَ ٱلْأَلِيمَ ﴾

“And Moses prayed: "O our Sustainer! Verily, splendour and riches hast Thou vouchsafed, in the life of this world, unto Pharaoh and his great ones-with the result, O our Sustainer, that they are leading [others] astray from Thy path! O our Sustainer! Wipe out their riches, and harden their hearts, so that they may not attain to faith ere they see the grievous suffering [that awaits them]!"”

📝 التفسير:

جو لوگ آخرت کی فکر کرتے ہیں وہ عام طور پر دنیوی ساز وسامان جمع کرنے میں ان لوگوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں جو آخرت سے بے فکر ہو کر دنیا حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہوں۔دنیوی کمی آخرت کی طرف دھیان لگانے کی قیمت ہے، اور دنیوی زیادتی آخرت سے غافل ہونے کی قیمت۔ مزید یہ کہ جس کے پاس دنیا کی رونق اور سامان زیادہ جمع ہوجائیں وہ بڑائی کے احساس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ایسے لوگ اپنے اندر یہ صلاحیت کھودیتے ہیں کہ کسی دوسرے کی زبان سے جاری ہونے والے حق کو پہچانیں اور اس کے آگے جھک جائیں۔ اپنے وسائل کو اگر وہ خدا کا عطیہ سمجھتے تو اس کو حق کی تائید میں استعمال کرتے، مگر وہ اس کو اپنا ذاتی کمال سمجھتے ہیں اس ليے وہ اس کو صرف اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ حق کو دبائیں اور اس طرح ماحول کے اندر اپنی برتری قائم رکھیں۔ ’’تاکہ وہ تیری راہ سے بھٹکائیں‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کے ديے ہوئے مال واسباب کو صرف اس لیے استعمال کیا کہ اس کے ذریعے سے خدا کے بندوں کو خدا سے دور کریں، انھوں نے اس کو حق کی خدمت میں لگانے کے بجائے باطل کی خدمت میں لگایا، یہاں شدت بیان کی خاطر کلام کا اسلوب بدل گیا ہے۔ حضرت موسیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سچے دین کی دعوت پیش کی اور اپنی اعلیٰ صلاحیتوں اور خدا کی نصرتوں کے ذریعہ اس کو اتمام حجت کی حد تک واضح کردیا، اس کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے آنجناب کے پیغام کو نہیں مانا۔ اس وقت حضرت موسیٰ نے دعا کی کہ خدایا ان کے اوپر وہ سزا نازل فرما جو تیرے قانون کے تحت ایسے سرکشوں کے لیے مقدر ہے۔ ایسے موقع پر پیغمبر کی بد دعا خود خدا کے فیصلہ کا اعلان ہوتاہے جو نمائندہ خدا کی زبان سے جاری کیا جاتاہے۔ حضرت موسیٰ کی دعا قبول ہوگئی۔ تاہم جیسا کہ بعض روایات میں آتاہے، حضرت موسیٰ کی دعا اور فرعون کی تباہی کے درمیان 40 سال کا فاصلہ ہے(تفسير النسفی، جلد2، صفحہ 38 ) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد بھی لمبی مدت تک یہ صورت حال باقی رہی کہ حضرت موسیٰ اور آپ کے ساتھی اپنے آپ کو بے بس پاتے تھے۔ اور دوسری طرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کی شان وشوکت بدستور ملک میں قائم تھی۔ ایسی حالت میں آدمی اگر خدا کی اس سنت سے بے خبر ہو کہ وہ سرکشوں کو مہلت دیتاہے تو وہ جلد بازی میں اصل کام چھوڑ دے گااور مایوسی اور بددلی کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔