slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 90 من سورة سُورَةُ يُونُسَ

Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ ۞ وَجَٰوَزْنَا بِبَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ ٱلْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُۥ بَغْيًۭا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَدْرَكَهُ ٱلْغَرَقُ قَالَ ءَامَنتُ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا ٱلَّذِىٓ ءَامَنَتْ بِهِۦ بَنُوٓا۟ إِسْرَٰٓءِيلَ وَأَنَا۠ مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ ﴾

“And We brought the children of Israel across the sea; and thereupon Pharaoh and his hosts pursued them with vehement insolence and tyranny, until [they were overwhelmed by the waters of the sea. And] when he was about to drown, [Pharaoh] exclaimed: "I have come to believe that there is no deity save Him in whom the children of Israel believe, and I am of those who surrender themselves unto Him!"”

📝 التفسير:

مصر میں حضرت موسیٰ کا مشن دو طرفہ تھا۔ ایک، فرعون کو توحید اور آخرت کی طرف بلانا۔ دوسرے، بنی اسرائیل کو مصر سے باہر صحرائی ماحول میں لے جانا اور وہاں ان کی تربیت کرنا۔ جب فرعون پر دعوتِ حق کی تکمیل ہوچکی تو اللہ کے حکم سے وہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہوئے ۔ صحرائے سینا پہنچنے کے لیے انھیں دریا کو پار کرنا تھا۔ جب بنی اسرائیل حضرت موسی کی رہنمائی میں دریا کے کنارے پہنچے تو اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ نے پانی پر اپنا عصامارا۔ پانی بیچ سے پھٹ کر دائیں بائیں کھڑا ہوگیا، اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل اس راستہ سے بآسانی پار ہوگئے۔ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھا۔ وہ دریا کے کنارے پہنچا تو دیکھا کہ موسیٰ اور بنی اسرائیل پانی کے درمیان ایک خشک راستہ سے گزررہے ہیں۔ دریا کے وسیع پاٹ نے پھٹ کر حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو راستہ دے دیاتھا۔ یہ واقعہ دراصل خدا کی ایک نشانی تھا۔ فرعون کو اس سے یہ سبق لینا چاہیے تھاکہ موسیٰ حق پر ہیں اور خدا ان کے ساتھ ہے۔ مگر اس نے دریا کے پھٹنے کو خدائی واقعہ سمجھنے کے بجائے عام واقعہ سمجھا۔ اپنے اور موسیٰ کے درمیان فرعون کو صرف دریا نظر آیا، حالاں کہ وہاں خود خدا کھڑا ہوا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس واقعہ میں فرعون کے لیے اطاعت اور انابت کا پیغام تھا وہ اس کے لیے صرف سرکشی میں اضافہ کا سبب بن گیا۔ اس نے ’’دریا‘‘ کو دیکھا مگر ’’خدا ‘‘ کو نہیں دیکھا۔ اس نے سمجھا کہ جس طرح موسیٰ اور ان کے ساتھیوں نے دریا کو پار کیا ہے اسی طرح وہ بھی دریا کو پار کرسکتاہے۔ اپنے اس ذہن کے ساتھ فرعون اور اس کا لشکر دریا میں داخل ہوگئے۔ دریا کا پانی جو دو ٹکڑے ہوا تھا وہ موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کے لیے ہوا تھا، وہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کے لیے نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ فرعون اور اس کا لشکر جب بیچ دریا میں پہنچے تو خداکے حکم سے دونوں طرف کا پانی مل گیا اور فرعون اپنے لشکر سمیت اس میں غرق ہوگیا۔ غرق ہوتے ہوئے فرعون نے ایمان کا اقرار کیا مگر وہ بے سود تھا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اختیاری ایمان معتبر ہے، نہ کہ وہ ایمان جب کہ آدمی ایمان لانے پر مجبور ہوگیا ہو۔ خدا سے نافرمانی اور سرکشی کا انجام ہلاکت ہے، اس کا نمونہ دور رِسالت میں بار بار انسان کے سامنے آتا تھا۔ تاہم اس قسم کے کچھ نمونے خدانے مستقل طورپر محفوظ کرديے ہیں تاکہ وہ بعد کے زمانے میں بھی انسان کو سبق دیتے رہیں جب کہ نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا ہو۔ انھیں میں سے ایک تاریخی نمونہ فرعونِ موسیٰ (رعمیس ثانی) کا ہے جس کی ممی کی ہوئی لاش ماہرین اثریات کو قدیم مصری شہر تھیبس (Thebes) میں ملی تھی اور اب وہ قاہرہ کے میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی ہوئی ہے۔