Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍۢ وَرَزَقْنَٰهُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَٰتِ فَمَا ٱخْتَلَفُوا۟ حَتَّىٰ جَآءَهُمُ ٱلْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِى بَيْنَهُمْ يَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ فِيمَا كَانُوا۟ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴾
“And [thereafter], indeed, We assigned unto the children of Israel a most goodly abode, and provided for them sustenance out of the good things of life. And it was not until knowledge [of God's revelation] was vouchsafed to them that they began to hold divergent views: [but,] verily, thy Sustainer will judge between them on Resurrection Day regarding all on which they were wont to differ.”
بنی اسرائیل قدیم زمانہ میں خداکے دین کے حامل تھے۔ ان کے ساتھ خدا نے یہ احسان کیا کہ ان کے دشمن (فرعون) سے ان کو نجات دی۔ اس کے بعد وہ ان کو سینا کی کھلی فضا میں لے گیا۔ وہاں ان کے لیے خصوصی انتظام کے تحت پانی اور رزق مہیا کیا۔ صحرائی تربیت کے ذریعہ ان کے اندر ایک نئی طاقت ور نسل تیار کی۔ اس نسل نے حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد ایک عظیم ملک فتح کیا اور شام اور اردن اور فلسطین جیسے سرسبز علاقہ میں بنی اسرائیل کی سلطنت قائم کی جو کئی سوسال تک باقی رہی۔ اس احسان کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ بنی اسرائیل خدا کے فرماں بردار اور شکر گزا ر رہتے اور خدا کے دین کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بناتے۔ مگر واضح رہنمائی کے ہوتے ہوئے وہ راہ سے بے راہ ہوگئے۔ ان کا راہ سے بے راہ ہونا کیا تھا۔ یہ آپس کا اختلاف تھا۔ ان کے پاس خدا کا اتارا ہوا علم موجود تھا جو واحد سچائی تھا۔ مگر انھوں نے اس علم کی تشریح وتاویل میں اختلاف کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے(تفسير النسفی، جلد2، صفحہ40)۔ کوئی امت جب تک خدا کے اتارے ہوئے دین (العلم) پر رہتی ہے، اس میں اتفاق واتحاد رہتاہے۔ مگر بعد کو ان کے درمیان اس العلم کی تشریح میں اختلافات شروع ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ایک اختلافی رائے لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ لوگ دوسری اختلافی رائے لے کر۔ ہر ایک اپنے اپنے مسلک کو برحق ثابت کرنے کے لیے بحث مباحثہ اور تقریر اور مناظرہ کا طوفان کھڑا کرتاہے۔ نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ اصل العلم کتابوں میں بند پڑا رہتاہے اور سارا زور ان کی تاویلات وتشریحات میں صرف ہونے لگتاہے۔ اس طرح بنیادی دینی تعلیمات (العلم) میں متحد الرائے ہونے کے باوجود لوگ ذیلی تعلیمات میں مشغول ہوکر مختلف الرائے ہوجاتے ہیں۔ ’’اللہ قیامت کے دن فیصلہ کردے گا‘‘ بظاہر متعدی ہے مگر حقیقۃً وہ لازم کا صیغہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت میں جب خدا ظاہر ہوگا تو ہر آدمی اپنے اختلاف کو بھول کر اسی بات کو مان لے گا جو واحد سچائی ہے۔ اگر وہ خدا سے ڈرتے تو آج ہی سب کے سب ایک رائے پر پہنچ جاتے۔ مگر خدا سے بے خوف ہو کر وہ الگ الگ راہوں میں بٹ گئے ہیں۔ بے خوفی سے رایوں کا تعدد پیدا ہوتا ہے اور خوف سے رایوں کا اتحاد۔