slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 97 من سورة سُورَةُ يُونُسَ

Yunus • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَلَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ ءَايَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُا۟ ٱلْعَذَابَ ٱلْأَلِيمَ ﴾

“even though every sign [of the truth] should come within their ken - until they behold the grievous suffering [that awaits them in the life to come].”

📝 التفسير:

انسان کے سامنے جب ایک حق بات آتی ہے تو اس کی عقل گواہی دیتی ہے کہ یہ صحیح ہے۔ مگر کسی حق کو لینے کے لیے آدمی کو کچھ دینا پڑتاہے اور اسی دینے کے لیے آدمی تیار نہیں ہوتا۔ اس کی خاطر آدمی کو دوسرے کے مقابلہ میں اپنے کو چھوٹا کرنا پڑتاہے۔ اپنے مفاد کو خطرہ میں ڈالنا ہوتا ہے۔ اپنی رائے اور اپنے وقار کو کھونا پڑتا ہے۔ یہ اندیشے آدمی کے لیے قبولِ حق میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ جس چیز کا جواب اس کو قبولیت اوراعتراف سے دینا چاہیے تھا اس کا جواب وہ انکار اور مخالفت سے دینے لگتا ہے۔ آدمی کی نفسیات کچھ اس طرح بنی ہیں کہ وہ ایک بار جس رخ پر چل پڑے اسی رخ پر اس کا پورا ذہن چلنے لگتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار حق سے انحراف کرنے کے بعد بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی دوبارہ حق کی طرف لوٹے۔ کیوں کہ ہر آنے والے دن وہ اپنے فکر میں پختہ تر ہوتا چلا جاتاہے۔ یہاںتک وہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ حق کی طرف واپس آجائے۔ اس طرح کے لوگ اپنے موقف کو بتانے کے لیے ایسے الفاظ بولتے ہیں جس سے ظاہر ہو کہ ان کا کیس نظریاتی کیس ہے۔ مگر حقیقۃً وہ صرف ضد اور تعصب اور ہٹ دھرمی کا کیس ہوتا ہے جو اپنی دنیوی مصلحتوں کی خاطر اختیا رکیا جاتا ہے۔ تاہم عذاب خداوندی کے ظہور کے وقت آدمی کا یہ بھرم کھل جائے گا۔ خوف کی حالت اس کو اس چیز کے آگے جھکنے پر مجبور کردے گی جس کے آگے وہ بے خوفی کی حالت میں جھکنے پر تیار نہ ہوتا تھا۔ پچھلے زمانہ میں جتنے رسول آئے سب کے ساتھ یہ قصہ پیش آیا کہ ان کی مخاطب قوم آخر وقت تک ایمان نہیں لائی۔ البتہ جب وہ عذاب کی پکڑ میں آگئے تو انھوں نے کہا کہ ہم ایمان قبول کرتے ہیں۔ جب تک خدا انھیں دلیل کی زبان میں پکار رہا تھا، انھوں نے نہیں مانا اور جب خدا نے انھیں اپنی طاقتوں کی زد میں لے لیا تو کہنے لگے کہ اب ہم مانتے ہیں۔ مگر ایسا ماننا خدا کے یہاں معتبر نہیں۔ خدا کو وہ ماننا مطلوب ہے جب کہ آدمی دلیل کے زور پر جھک جائے، نہ کہ وہ طاقت کے زور پر جھکے۔ حضرت یونس علیہ السلام عراق کے ایک قدیم شہر نینویٰ میں بھیجے گئے۔ انھوں نے وہاں تبلیغ کی مگر وہ لوگ ایمان نہ لائے۔ آخر حضرت یونس نے پیغمبروں کی سنت کے مطابق ہجرت کی۔ وہ یہ کہہ کر نینویٰ سے چلے گئے کہ اب تمھارے اوپر خدا کا عذاب آئے گا۔ حضرت یونس کے جانے کے بعد عذاب کی ابتدائی علامتیں ظاہر ہوئیں۔ مگر اس وقت انھوں نے وہ نہ کیا جو قوم ہود نے کیا تھا کہ انھوں نے عذاب کا بادل آتے دیکھ کر کہا کہ یہ ہمارے لیے بارش برسانے آرہا ہے۔ قوم یونس کے اندر فوراً چونک پیدا ہوگئی۔ سارے لوگ اپنے مویشیوں اور عورتوں اور بچوں کو لے کر میدان میں جمع ہوگئے اور خداکے آگے عاجزی کرنے لگے۔ اس کے بعدعذاب ان سے اٹھا لیا گیا۔ جس طرح ظہور عذاب سے پہلے کا ایمان قابلِ اعتبار ہے اسی طرح وقوع عذاب کے قریب کا ایمان بھی قابل اعتبار ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ اتنا کامل ہو جتنا کامل قوم یونس کا ایمان تھا۔