slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الناس

(An-Nas) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ

📘 انسان ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو لازمی طور پر پناہ کی ضرورت ہے۔ یہ پناہ اس کو ایک خدا کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ خدا ہی تمام انسانوں کا رب ہے، وہی لوگوں کا بادشاہ ہے، وہی لوگوں کا معبود ہے۔ پھر اس کے سوا کون ہے جو شر اور فتنہ کے مقابلہ میں لوگوں کا سہارا بنے۔ سب سے زیادہ خطرناک فتنہ جس سے انسان کو خدا کی پناہ مانگنی چاہيے وہ شیطان ہے۔ وہ سب سے زیادہ خطرناک اس لیے ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی اصل حیثیت کو چھپاتا ہے۔ اور پر فریب تدبیروں سے انسان کو بہکاتا ہے۔ اس لیے شیطان کے فتنوں سے وہی شخص بچ سکتا ہے جو بہت زیادہ باہوش ہو، جس کو اللہ نے وہ سمجھ دی ہو جس کے ذریعہ وہ حق اور ناحق میں تمیز کرسکے۔ وہ سمجھ سکے کہ کون سی بات حقیقی بات ہے اور کون سی بات وہ ہے جو حقیقی بات نہیں۔ یہ وسوسہ انداز ی کرنے والے صرف معروف شیاطین ہی نہیں ہیں۔ انسانوں میں بھی ایسے شیطان نما لوگ ہیں جو مصنوعی روپ میں سامنے آتے ہیں اور پر فریب الفاظ کے ذریعہ آدمی کے ذہن کو پھیر کر اس کو گمراہی کے راستہ پر ڈال دیتے ہیں  عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَجَلَسْتُ، فَقَالَيَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ صَلَّيْتَ؟ قُلْتُلَا. قَالَقُمْ فَصَلِّ، قَالَفَقُمْتُ فَصَلَّيْتُ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَقَالَيَا أَبَا ذَرٍّ، تَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَالَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، وَلِلْإِنْسِ شَيَاطِينُ؟ قَالَنَعَمْ (مسند احمد، حدیث نمبر 21546) حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت مسجد میں تھے۔ میں بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا، اے ابو ذر کیا تم نے نماز پڑھی۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور نماز پڑھی اور پھر میں آ کر بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اے ابوذر ، جن و انس کے شیطانوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا  ہاں۔ فتنوں سے خدا کی پناہ مانگنا دو طرفہ عمل ہے۔ ایک طرف وہ خدا کی عنایت کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہے۔ اور دوسری طرف اس کا مقصد یہ ہے کہ فتنوں کے مقابلہ میں اپنے شعور کو بیدار کیا جائے تاکہ آدمی زیادہ باہوش طور پر اس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔ (دہلی، 19 جولائی 1986)

مَلِكِ النَّاسِ

📘 انسان ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو لازمی طور پر پناہ کی ضرورت ہے۔ یہ پناہ اس کو ایک خدا کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ خدا ہی تمام انسانوں کا رب ہے، وہی لوگوں کا بادشاہ ہے، وہی لوگوں کا معبود ہے۔ پھر اس کے سوا کون ہے جو شر اور فتنہ کے مقابلہ میں لوگوں کا سہارا بنے۔ سب سے زیادہ خطرناک فتنہ جس سے انسان کو خدا کی پناہ مانگنی چاہيے وہ شیطان ہے۔ وہ سب سے زیادہ خطرناک اس لیے ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی اصل حیثیت کو چھپاتا ہے۔ اور پر فریب تدبیروں سے انسان کو بہکاتا ہے۔ اس لیے شیطان کے فتنوں سے وہی شخص بچ سکتا ہے جو بہت زیادہ باہوش ہو، جس کو اللہ نے وہ سمجھ دی ہو جس کے ذریعہ وہ حق اور ناحق میں تمیز کرسکے۔ وہ سمجھ سکے کہ کون سی بات حقیقی بات ہے اور کون سی بات وہ ہے جو حقیقی بات نہیں۔ یہ وسوسہ انداز ی کرنے والے صرف معروف شیاطین ہی نہیں ہیں۔ انسانوں میں بھی ایسے شیطان نما لوگ ہیں جو مصنوعی روپ میں سامنے آتے ہیں اور پر فریب الفاظ کے ذریعہ آدمی کے ذہن کو پھیر کر اس کو گمراہی کے راستہ پر ڈال دیتے ہیں  عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَجَلَسْتُ، فَقَالَيَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ صَلَّيْتَ؟ قُلْتُلَا. قَالَقُمْ فَصَلِّ، قَالَفَقُمْتُ فَصَلَّيْتُ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَقَالَيَا أَبَا ذَرٍّ، تَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَالَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، وَلِلْإِنْسِ شَيَاطِينُ؟ قَالَنَعَمْ (مسند احمد، حدیث نمبر 21546) حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت مسجد میں تھے۔ میں بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا، اے ابو ذر کیا تم نے نماز پڑھی۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور نماز پڑھی اور پھر میں آ کر بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اے ابوذر ، جن و انس کے شیطانوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا  ہاں۔ فتنوں سے خدا کی پناہ مانگنا دو طرفہ عمل ہے۔ ایک طرف وہ خدا کی عنایت کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہے۔ اور دوسری طرف اس کا مقصد یہ ہے کہ فتنوں کے مقابلہ میں اپنے شعور کو بیدار کیا جائے تاکہ آدمی زیادہ باہوش طور پر اس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔ (دہلی، 19 جولائی 1986)

إِلَٰهِ النَّاسِ

📘 انسان ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو لازمی طور پر پناہ کی ضرورت ہے۔ یہ پناہ اس کو ایک خدا کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ خدا ہی تمام انسانوں کا رب ہے، وہی لوگوں کا بادشاہ ہے، وہی لوگوں کا معبود ہے۔ پھر اس کے سوا کون ہے جو شر اور فتنہ کے مقابلہ میں لوگوں کا سہارا بنے۔ سب سے زیادہ خطرناک فتنہ جس سے انسان کو خدا کی پناہ مانگنی چاہيے وہ شیطان ہے۔ وہ سب سے زیادہ خطرناک اس لیے ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی اصل حیثیت کو چھپاتا ہے۔ اور پر فریب تدبیروں سے انسان کو بہکاتا ہے۔ اس لیے شیطان کے فتنوں سے وہی شخص بچ سکتا ہے جو بہت زیادہ باہوش ہو، جس کو اللہ نے وہ سمجھ دی ہو جس کے ذریعہ وہ حق اور ناحق میں تمیز کرسکے۔ وہ سمجھ سکے کہ کون سی بات حقیقی بات ہے اور کون سی بات وہ ہے جو حقیقی بات نہیں۔ یہ وسوسہ انداز ی کرنے والے صرف معروف شیاطین ہی نہیں ہیں۔ انسانوں میں بھی ایسے شیطان نما لوگ ہیں جو مصنوعی روپ میں سامنے آتے ہیں اور پر فریب الفاظ کے ذریعہ آدمی کے ذہن کو پھیر کر اس کو گمراہی کے راستہ پر ڈال دیتے ہیں  عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَجَلَسْتُ، فَقَالَيَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ صَلَّيْتَ؟ قُلْتُلَا. قَالَقُمْ فَصَلِّ، قَالَفَقُمْتُ فَصَلَّيْتُ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَقَالَيَا أَبَا ذَرٍّ، تَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَالَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، وَلِلْإِنْسِ شَيَاطِينُ؟ قَالَنَعَمْ (مسند احمد، حدیث نمبر 21546) حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت مسجد میں تھے۔ میں بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا، اے ابو ذر کیا تم نے نماز پڑھی۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور نماز پڑھی اور پھر میں آ کر بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اے ابوذر ، جن و انس کے شیطانوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا  ہاں۔ فتنوں سے خدا کی پناہ مانگنا دو طرفہ عمل ہے۔ ایک طرف وہ خدا کی عنایت کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہے۔ اور دوسری طرف اس کا مقصد یہ ہے کہ فتنوں کے مقابلہ میں اپنے شعور کو بیدار کیا جائے تاکہ آدمی زیادہ باہوش طور پر اس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔ (دہلی، 19 جولائی 1986)

مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ

📘 انسان ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو لازمی طور پر پناہ کی ضرورت ہے۔ یہ پناہ اس کو ایک خدا کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ خدا ہی تمام انسانوں کا رب ہے، وہی لوگوں کا بادشاہ ہے، وہی لوگوں کا معبود ہے۔ پھر اس کے سوا کون ہے جو شر اور فتنہ کے مقابلہ میں لوگوں کا سہارا بنے۔ سب سے زیادہ خطرناک فتنہ جس سے انسان کو خدا کی پناہ مانگنی چاہيے وہ شیطان ہے۔ وہ سب سے زیادہ خطرناک اس لیے ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی اصل حیثیت کو چھپاتا ہے۔ اور پر فریب تدبیروں سے انسان کو بہکاتا ہے۔ اس لیے شیطان کے فتنوں سے وہی شخص بچ سکتا ہے جو بہت زیادہ باہوش ہو، جس کو اللہ نے وہ سمجھ دی ہو جس کے ذریعہ وہ حق اور ناحق میں تمیز کرسکے۔ وہ سمجھ سکے کہ کون سی بات حقیقی بات ہے اور کون سی بات وہ ہے جو حقیقی بات نہیں۔ یہ وسوسہ انداز ی کرنے والے صرف معروف شیاطین ہی نہیں ہیں۔ انسانوں میں بھی ایسے شیطان نما لوگ ہیں جو مصنوعی روپ میں سامنے آتے ہیں اور پر فریب الفاظ کے ذریعہ آدمی کے ذہن کو پھیر کر اس کو گمراہی کے راستہ پر ڈال دیتے ہیں  عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَجَلَسْتُ، فَقَالَيَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ صَلَّيْتَ؟ قُلْتُلَا. قَالَقُمْ فَصَلِّ، قَالَفَقُمْتُ فَصَلَّيْتُ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَقَالَيَا أَبَا ذَرٍّ، تَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَالَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، وَلِلْإِنْسِ شَيَاطِينُ؟ قَالَنَعَمْ (مسند احمد، حدیث نمبر 21546) حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت مسجد میں تھے۔ میں بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا، اے ابو ذر کیا تم نے نماز پڑھی۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور نماز پڑھی اور پھر میں آ کر بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اے ابوذر ، جن و انس کے شیطانوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا  ہاں۔ فتنوں سے خدا کی پناہ مانگنا دو طرفہ عمل ہے۔ ایک طرف وہ خدا کی عنایت کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہے۔ اور دوسری طرف اس کا مقصد یہ ہے کہ فتنوں کے مقابلہ میں اپنے شعور کو بیدار کیا جائے تاکہ آدمی زیادہ باہوش طور پر اس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔ (دہلی، 19 جولائی 1986)

الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ

📘 انسان ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو لازمی طور پر پناہ کی ضرورت ہے۔ یہ پناہ اس کو ایک خدا کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ خدا ہی تمام انسانوں کا رب ہے، وہی لوگوں کا بادشاہ ہے، وہی لوگوں کا معبود ہے۔ پھر اس کے سوا کون ہے جو شر اور فتنہ کے مقابلہ میں لوگوں کا سہارا بنے۔ سب سے زیادہ خطرناک فتنہ جس سے انسان کو خدا کی پناہ مانگنی چاہيے وہ شیطان ہے۔ وہ سب سے زیادہ خطرناک اس لیے ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی اصل حیثیت کو چھپاتا ہے۔ اور پر فریب تدبیروں سے انسان کو بہکاتا ہے۔ اس لیے شیطان کے فتنوں سے وہی شخص بچ سکتا ہے جو بہت زیادہ باہوش ہو، جس کو اللہ نے وہ سمجھ دی ہو جس کے ذریعہ وہ حق اور ناحق میں تمیز کرسکے۔ وہ سمجھ سکے کہ کون سی بات حقیقی بات ہے اور کون سی بات وہ ہے جو حقیقی بات نہیں۔ یہ وسوسہ انداز ی کرنے والے صرف معروف شیاطین ہی نہیں ہیں۔ انسانوں میں بھی ایسے شیطان نما لوگ ہیں جو مصنوعی روپ میں سامنے آتے ہیں اور پر فریب الفاظ کے ذریعہ آدمی کے ذہن کو پھیر کر اس کو گمراہی کے راستہ پر ڈال دیتے ہیں  عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَجَلَسْتُ، فَقَالَيَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ صَلَّيْتَ؟ قُلْتُلَا. قَالَقُمْ فَصَلِّ، قَالَفَقُمْتُ فَصَلَّيْتُ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَقَالَيَا أَبَا ذَرٍّ، تَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَالَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، وَلِلْإِنْسِ شَيَاطِينُ؟ قَالَنَعَمْ (مسند احمد، حدیث نمبر 21546) حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت مسجد میں تھے۔ میں بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا، اے ابو ذر کیا تم نے نماز پڑھی۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور نماز پڑھی اور پھر میں آ کر بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اے ابوذر ، جن و انس کے شیطانوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا  ہاں۔ فتنوں سے خدا کی پناہ مانگنا دو طرفہ عمل ہے۔ ایک طرف وہ خدا کی عنایت کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہے۔ اور دوسری طرف اس کا مقصد یہ ہے کہ فتنوں کے مقابلہ میں اپنے شعور کو بیدار کیا جائے تاکہ آدمی زیادہ باہوش طور پر اس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔ (دہلی، 19 جولائی 1986)

مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ

📘 انسان ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو لازمی طور پر پناہ کی ضرورت ہے۔ یہ پناہ اس کو ایک خدا کے سوا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ خدا ہی تمام انسانوں کا رب ہے، وہی لوگوں کا بادشاہ ہے، وہی لوگوں کا معبود ہے۔ پھر اس کے سوا کون ہے جو شر اور فتنہ کے مقابلہ میں لوگوں کا سہارا بنے۔ سب سے زیادہ خطرناک فتنہ جس سے انسان کو خدا کی پناہ مانگنی چاہيے وہ شیطان ہے۔ وہ سب سے زیادہ خطرناک اس لیے ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی اصل حیثیت کو چھپاتا ہے۔ اور پر فریب تدبیروں سے انسان کو بہکاتا ہے۔ اس لیے شیطان کے فتنوں سے وہی شخص بچ سکتا ہے جو بہت زیادہ باہوش ہو، جس کو اللہ نے وہ سمجھ دی ہو جس کے ذریعہ وہ حق اور ناحق میں تمیز کرسکے۔ وہ سمجھ سکے کہ کون سی بات حقیقی بات ہے اور کون سی بات وہ ہے جو حقیقی بات نہیں۔ یہ وسوسہ انداز ی کرنے والے صرف معروف شیاطین ہی نہیں ہیں۔ انسانوں میں بھی ایسے شیطان نما لوگ ہیں جو مصنوعی روپ میں سامنے آتے ہیں اور پر فریب الفاظ کے ذریعہ آدمی کے ذہن کو پھیر کر اس کو گمراہی کے راستہ پر ڈال دیتے ہیں  عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَجَلَسْتُ، فَقَالَيَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ صَلَّيْتَ؟ قُلْتُلَا. قَالَقُمْ فَصَلِّ، قَالَفَقُمْتُ فَصَلَّيْتُ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَقَالَيَا أَبَا ذَرٍّ، تَعَوَّذْ بِاللهِ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَالَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، وَلِلْإِنْسِ شَيَاطِينُ؟ قَالَنَعَمْ (مسند احمد، حدیث نمبر 21546) حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت مسجد میں تھے۔ میں بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا، اے ابو ذر کیا تم نے نماز پڑھی۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور نماز پڑھی اور پھر میں آ کر بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اے ابوذر ، جن و انس کے شیطانوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا  ہاں۔ فتنوں سے خدا کی پناہ مانگنا دو طرفہ عمل ہے۔ ایک طرف وہ خدا کی عنایت کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہے۔ اور دوسری طرف اس کا مقصد یہ ہے کہ فتنوں کے مقابلہ میں اپنے شعور کو بیدار کیا جائے تاکہ آدمی زیادہ باہوش طور پر اس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے۔ (دہلی، 19 جولائی 1986)