Yusuf • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى ٱلْعَرْشِ وَخَرُّوا۟ لَهُۥ سُجَّدًۭا ۖ وَقَالَ يَٰٓأَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُءْيَٰىَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّى حَقًّۭا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِىٓ إِذْ أَخْرَجَنِى مِنَ ٱلسِّجْنِ وَجَآءَ بِكُم مِّنَ ٱلْبَدْوِ مِنۢ بَعْدِ أَن نَّزَغَ ٱلشَّيْطَٰنُ بَيْنِى وَبَيْنَ إِخْوَتِىٓ ۚ إِنَّ رَبِّى لَطِيفٌۭ لِّمَا يَشَآءُ ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ ﴾
“And he raised his parents to the highest place of honour; and they [all] fell down before Him, prostrating themselves in adoration. Thereupon [Joseph] said: "O my father! This is the real meaning of my dream of long ago, which my Sustainer has made come true. And He was indeed good to me when He freed me from the prison, and [when] He brought you [all unto me] from the desert after Satan had sown discord between me and my brothers. Verily, my Sustainer is unfathomable in [the way He brings about] whatever He wills: verily, He alone is all-knowing, truly wise!”
یہاں تخت سے مراد تخت شاہی نہیں ہے بلکہ وہ تخت ہے جس پر حضرت یوسف اپنے عہدہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے بیٹھتے تھے۔ سجدہ سے مراد بھی معروف سجدہ نہيں بلکہ رکوع کے انداز پر جھکنا ہے۔ کسی بڑے کی تعظیم کے لیے اس انداز میں جھکنا قدیم زمانہ میں بہت معروف تھا۔ ’’إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ‘‘ کامطلب یہ ہے کہ میرا رب جس کام کو کرنا چاہے اس کے لیے وہ نہایت مخفی راہیں نکال لیتاہے۔ خدا اپنے منصوبہ کی تکمیل کے لیے ایسی تدبیریں پیدا کرلیتا ہے جس کی طرف عام انسانوں کا گمان بھی نہیں جاسکتا۔