Yusuf • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَٰوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِۦ ۚ قُلْنَ حَٰشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوٓءٍۢ ۚ قَالَتِ ٱمْرَأَتُ ٱلْعَزِيزِ ٱلْـَٰٔنَ حَصْحَصَ ٱلْحَقُّ أَنَا۠ رَٰوَدتُّهُۥ عَن نَّفْسِهِۦ وَإِنَّهُۥ لَمِنَ ٱلصَّٰدِقِينَ ﴾
“[Thereupon the King sent for those women; and when they came,] he asked: "What was it that you hoped to achieve when you sought to make Joseph yield himself unto you?" The women answered: "God save us! We did not perceive the least evil [intention] on his part!" [And] the wife of Joseph's former master exclaimed: "Now has the truth come to light! It was I who sought to make him yield himself unto me - whereas he, behold, was indeed speaking the truth!"”
قید خانہ سے نکل کر حضرت یوسف کو ایک ملکی کردار ادا کرنا تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ آپ کی شخصیت ملکی سطح پر ایک معروف شخصیت بن جائے۔ اس کی صورت بادشاہ کے خواب کے ذریعہ پیدا ہوگئی۔ بادشاہ نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ وہ اس کی تعبیر کے لیے اتنا بے چین ہوا کہ عام اعلان کرکے تمام ملک کے علماء، پیروںاور دانشوروں کو اپنے دربار میں جمع کیا۔ اور ان سے کہا کہ وہ اس خواب کی تعبیر بتائیں مگر سب کے سب عاجز رہے۔ اس طرح خواب کا واقعہ ایک عمومی شہرت کا واقعہ بن گیا۔ اب جب حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر بیان کی اور بادشاہ نے اس کو پسند کیا تو اچانک وہ تمام ملک کی نظروں میں آگئے۔ بادشاہ نے ساری بات سننے کے بعد متعلقہ عورتوں سے اس کی تحقیق کی۔ سب نے بیک زبان حضرت یوسف کو بری الذمہ قرار دیا۔ عزیز مصر کی بیوی اعتراف حق میں سب سے آگے نکل گئی۔ اس نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ اب سچائی کھل چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سارا قصور میرا تھا۔ یوسف کا کچھ بھی قصور نہ تھا۔ عزیز مصر کی بیوی (زلیخا) کا یہ اقرار اتنا عظیم عمل ہے کہ عجب نہیں کہ اس کے بعد اس کو ایمان کی توفیق دے دی گئی ہو۔