slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 24 من سورة سُورَةُ إِبۡرَاهِيمَ

Ibrahim • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا كَلِمَةًۭ طَيِّبَةًۭ كَشَجَرَةٍۢ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌۭ وَفَرْعُهَا فِى ٱلسَّمَآءِ ﴾

“ART THOU NOT aware how God sets forth the parable of a good word? [It is] like a good tree, firmly rooted, [reaching out] with its branches towards the sky,”

📝 التفسير:

موجودہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے مختلف حقیقتوں کی ظاہری تمثیلات قائم کی ہیں۔ شجرۂ طیبہ (اچھا درخت) ایک اعتبار سے مومن کی تمثیل ہے۔ درخت کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنا غذائی دستر خوان بناتا ہے اور اس طرح بیج سے ترقی کرکے ایک عظیم درخت کی صورت میں زمین کے اوپر کھڑا ہوجاتا ہے۔درخت زمین سے پانی اور معدنیات اور نمکیات لے کر بڑھتا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ ہوا اور سورج سے اپنے لیے غذا حاصل کرتاہے۔ وہ نیچے سے بھی خوراک لیتا ہے اور اوپر سے بھی۔ یہی مومن کا معاملہ بھی ہے۔ عام درخت اگر مادی درخت ہے تو مومن شعوری درخت۔ مومن ایک طرف دنیا میں خدا کی تخلیقات اور اس کے نظام کو دیکھ کر عبرت اور نصیحت حاصل کرتا ہے۔ د وسری طرف ’’اوپر‘‘ سے اس کو مسلسل خدا کا فیضان پہنچتا رہتا ہے۔وہ مخلوقات سے بھی اپنے لیے اضافۂ ایمان کی خوراک حاصل کرتاہے اور خالق سے بھی اس کی قربت اور ملاقات برابر جاری رہتی ہے۔ درخت ہر موسم میں اپنے پھل دیتاہے۔ اسی طرح مومن ہر موقع پر وہ صحیح رویہ ظاہر کرتاہے جو اسے ظاہر کرنا چاہیے۔ معاشی تنگی ہو یا معاشی فراخی، خوشی کا لمحہ ہو یا غم کا۔ شکایت کی بات ہو یا تعریف کی۔ زور آوری کی حالت ہو یا بے زوری کی، ہر موقع پر اس کی زبان اور اس کا کردار وہی رد عمل ظاہر کرتاہے جو خدا کے سچے بندے کی حیثیت سے اسے ظاہر کرنا چاہیے۔ دوسری مثال شجرۂ خبیثہ (جھاڑ جھنکاڑ) کی ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتاہے کہ کائنات سے اس کو بالکل برعکس قسم کی خوراک مہیا کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اس کے اوپر کانٹے اگتے ہیں۔ اس کی شاخوں میں کڑوے اور بدمزہ پھل لگتے ہیں۔اس کے پاس کوئی شخص جائے تووہ بدبو سے اس کا استقبال کرتا ہے۔ ایسے درخت کو کوئی پسند نہیں کرتا۔ وہ جہاں اگے وہاں سے اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ غیر مومن کا ہے۔ وہ زمین میں ایک غیر مطلوب وجود کی حیثیت سے اُگتا ہے۔ کائنات اپنی تمام بہترین نشانیوں کے باوجود اس کے لیے ایسی ہوجاتی ہے جیسے یہاں اس کے لیے نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی نصیحت۔ خدا کا فیضان اگر چہ ہر وقت برستا ہے مگر اس کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا۔ اس کے کردار اور معاملات میں اس کا اظہار نہیں ہوتا۔