Ibrahim • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ يُثَبِّتُ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ بِٱلْقَوْلِ ٱلثَّابِتِ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَفِى ٱلْءَاخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ ٱللَّهُ ٱلظَّٰلِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ ﴾
“[Thus,] God grants firmness unto those who have attained to faith through the word that is unshakably true in the life of this world as well as in the life to come; but the wrongdoers He lets go astray: for God does whatever He wills.”
’’خدا اہل ایمان کو کلمۂ توحید کے ذریعہ دنیا میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں بھی‘‘— دنیا میں ثابت قدم رہنے سے مراد اپنی زندگی کے ہر موڑ پر خیر اور عمل صالح کی روش پر قائم رہنا ہے۔ آخرت میں ثابت قدم رہنے سے مراد یہ ہے کہ قبر کے سوال وجواب کے وقت وہ کامیاب رہیں گے۔ انسان ہر لمحہ حالت امتحان میں ہے۔ اس پر طرح طرح کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ احوال آتے ہیں۔ ان مواقع پر صحیح خدائی روش پر صرف وہ لوگ قائم رہتے ہیں جو اپنے اندر ’’درختِ ایمان‘‘ اگا چکے ہوں۔ وہ پیش آمدہ صورتِ حال میں اس صحیح ترین رد عمل کا ثبوت دیتے ہیںجو خدا کی مرضی کے مطابق انھیں دینا چاہيے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کی شخصیت جھاڑ جھنکاڑ کی مانند اُگی ہو وہ ہر تجربہ میں کڑواہٹ کا ثبوت دیتاہے۔ وہ ہر موقع پر کانٹا اور بدبو ثابت ہوتا ہے۔ دونوں قسم کے انسان جب قبر کے مرحلہ میں آخری طورپر جانچے جائیں گے تو جو شجرۂ طیبہ تھا وہ شجرۂ طیبہ ثابت ہو کر جنت کے باغ میں داخل کردیا جائے گا۔ اور جو شجرۂ خبیثہ تھا اس کے ساتھ ایسا معاملہ ہوگا گویا وہ دنیا سے صرف اس لیے اکھاڑا گیا تھا کہ جہنم کا ایندھن بننے کے لیے جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے۔