Ibrahim • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ ۞ أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ بَدَّلُوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ كُفْرًۭا وَأَحَلُّوا۟ قَوْمَهُمْ دَارَ ٱلْبَوَارِ ﴾
“ART THOU NOT aware of those who have preferred a denial of the truth to God's blessings, and [thereby] invited their people to alight in that abode of utter desolation”
ان آیات کا ابتدائی خطاب قریش کے سرداروں سے ہے۔ مگر اس عمومی انطباق میں وہ تمام لیڈر شامل ہیں جو انکارِ حق کی مہم کی سرداری کرتے ہیں۔ کسی قوم کے بڑے وہی لوگ بنتے ہیں جن کو خصوصی نعمتیں اورمواقع حاصل ہوں۔ ان نعمتوں اور مواقع کا صحیح ترین استعمال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے حق کی دعوت اٹھے تو وہ اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس کی جانب کھڑے ہوں اور اس کی پوری مدد کریں۔ جو چیزیں خدا کی دی ہوئی ہیں ان پر سب سے زیادہ حق خدا کا ہے، نہ کہ کسی اورکا۔ مگر اکثر حالات میں معاملہ اس کے برعکس ہوتاہے۔ ایسے لوگ نہ صرف یہ کہ حق کو قبول نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف اٹھنے والی تحریک کی قیادت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے سے باہر اٹھنے والے حق کو قبول کرنا گویا اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں چھوٹا کرنا ہے۔ اور ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس پر راضی ہو جائیں جن کو کسی وجہ سے ماحول میں بڑائی کا درجہ مل گیا ہو۔ انسان کو ایک خدا چاہیے۔ ایک ایسی ہستی جسے وہ اپنی زندگی میں سب سے بڑا مقام دے سکے۔ چنانچہ جب بھی کوئی شخص لوگوں کی توجہ خدائے واحد سے ہٹاتاہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ لوگوں کی توجہ کسی غیر خدا کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ خدا کو چھوڑنا ہمیشہ غیر خدا کو اپنا خدا بنانے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ خدا سے لوگوں کو ہٹانے والے کسی غیر خدا میں فرضی طورپر وہ اعلیٰ صفات ثابت کرتے ہیں جو صرف خدا میں پائی جاتی ہیں۔ کیوں کہ جب تک غیر خدا میں وہ اعلیٰ صفات ثابت نہ کی جائیں لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب ایک خدا کی پرستش چھوڑتا ہے تو وہ اس کے بعد لازمی طورپر توہم پرستی میں پڑ جاتا ہے۔ خدا کو چھوڑنے کا واحد بدل اس دنیا میں توہم پرستی ہے۔