slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير الآية 34 من سورة سُورَةُ إِبۡرَاهِيمَ

Ibrahim • UR-TAZKIRUL-QURAN

﴿ وَءَاتَىٰكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا۟ نِعْمَتَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآ ۗ إِنَّ ٱلْإِنسَٰنَ لَظَلُومٌۭ كَفَّارٌۭ ﴾

“And [always] does He give you something out of what you may be asking of Him; and should you try to count God's blessings, you could never compute them. [And yet,] behold, man is indeed most persistent in wrongdoing, stubbornly ingrate!”

📝 التفسير:

موجودہ دنیا انتہائی حیرت ناک حد تک خدا کی گواہی دے رہی ہے۔ وسیع خلا میں ستاروں اور سیاروں کی گردش، پانی کے ذریعہ زمین پر زندگی اور رزق کی فراہمی، خشکی و تری اور فضا پر انسان کو یہ قدرت ہونا کہ ان میں وہ اپنی سواریاں دوڑائے، دریاؤں اور پہاڑوں کے ذریعے زمین کا انسان کے موافق ہو جانا سورج اور چاند کے ذریعہ موسموں کا اور رات دن کا انتظام، سب کچھ اس سے زیادہ عظیم ہے کہ ان کو لفظوں میں بیان کیا جاسکے۔ انسان اور کائنات میں اتنی کامل مطابقت ہے کہ انسان کی ہر قابل قیاس یاناقابل قیاس ضرورت پیشگی طورپر یہاں بافراط موجود ہے۔ یہ تمام چیزیں اتنی زیادہ عجیب ہیں کہ آدمی کو ہلا دیں اور اس کو عبدیت کے جذبے سے سرشار کردیں۔ اس کے باوجود ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ کائنات کو دیکھ کر آدمی کے اندر استعجاب کی کیفیت پیدا ہو۔ خالق کائنات کے تصور سے اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی پیدا ہوتے ہی کائنات کو دیکھتا ہے، دیکھتے دیکھتے وہ اس کو ایک عام چیز معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس میں اسے کوئی انوکھا پن نظر نہیں آتا۔ مزید یہ کہ اس دنیا میں آدمی کو جب کوئی چیز ملتی ہے تو وہ بظاہر اس کو اسباب کے تحت ملتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس بنا پر وہ سمجھ لیتاہے کہ جو چیز اس کو ملی ہے وہ اس کی اپنی محنت اور صلاحیت کی بنا پر ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی کے اندر دینے والے خدا کے ليے شکر کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ انسان کی یہی وہ غفلت ہے جس کو یہاں بے انصافی اور ناشکر گزاری سے تعبیر کیا گیاہے۔