Ibrahim • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلنَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِى فَإِنَّهُۥ مِنِّى ۖ وَمَنْ عَصَانِى فَإِنَّكَ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴾
“for, verily, O my Sustainer, these [false objects of worship] have led many people astray! "Hence, [only] he who follows me [in this my faith] ~ is truly of me; and as for him who disobeys me - Thou art, verily, much-forgiving, a dispenser of grace!”
حضرت ابراہیم کے زمانہ تک ملکوںاور قوموں کا یہ حال ہوچکا تھا کہ ہر طرف شرک کا دور دورہ تھا۔ سورج چاند اور دوسرے مظاہر فطرت انسان کی پرستش کا موضوع بنے ہوئے تھے۔ قدیم زمانہ میں زندگی کی تمام سرگرمیوں پر شرک کا اس طرح غلبہ ہوا کہ انسانی نسلوں میں شرک کا تسلسل قائم ہوگیا۔ بظاہر یہ ناممکن نظر آنے لگا کہ لوگوں کو شرک کی فضا سے نکال کر توحید کے دائرے میں لایا جاسکے۔ اس وقت خدا کے حکم خاص کے تحت حضرت ابراہیم عراق سے نکل کر عرب کے صحرا میںآئے جو تمدن سے دور بالکل غیر آباد علاقہ تھا۔ آپ نے الگ تھلگ ماحول میں اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بچہ اسماعیل کو بسایا۔ تاکہ یہاں وقت کے مشرکانہ تسلسل سے کٹ کر ایک نئی نسل تیار ہو۔ جو آزادانہ فضا میں پرورش پاکر اپنی فطرت صحیحہ پر قائم ہوسکے— حضرت ابراہیم کا کلام دعا کے انداز میں اسی خاص حقیقت کو ظاہر کررہا ہے۔ بنواسماعیل کو خشک اور غیر آباد بیابان میں بسانے سے خدا کا منصوبہ یہی تھا۔ اب یہاں کے جن لوگوں نے توحید کو اپنے دل کی آواز بنایا وہ گویا باغ ابراہیم کی صحیح پیداوار تھے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے دوبارہ شرک کا طریقہ اختیار کرلیاوہ اس باغ کی ناقص پیداوار قرار پائیں گے۔