Ibrahim • UR-TAZKIRUL-QURAN
﴿ رَبَّنَآ إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِى وَمَا نُعْلِنُ ۗ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى ٱللَّهِ مِن شَىْءٍۢ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فِى ٱلسَّمَآءِ ﴾
“"O our Sustainer! Thou truly knowest all that we may hide [in our hearts] as well as all that we bring into the open:' for nothing whatever, be it on earth or in heaven, remains hidden from God.”
حضرت ابراہیم کی اس دعا میں وہ تمام جذبات جھلک رہے ہیں جو ایک سچے بندے کے اندر خدا کو پکارتے ہوئے امنڈتے ہیں۔ اس کی عبدیت زور کرتی ہے کہ وہ خدا کے سامنے اپنے عجز کا اقرار کرے۔ جو کچھ مانگے احتیاج کی بنیاد پر مانگے، نہ کہ استحقاق کی بنیاد پر۔ایک طرف وہ ملی ہوئی نعمتوں کا اعتراف کرے اور دوسری طرف ادب کے تمام تقاضوں کے ساتھ اپنی درخواست پیش کرے۔ وہ اقرار کرے کہ خدا دینے والا ہے اور انسان پانے والا۔ وہ اپنے رب سے یہ توفیق مانگے کہ وہ دنیا میں اس کا پرستار بن کررہے۔ اسی کی درخواست وہ اپنے لیے بھی کرے اور اپنے اہل خاندان کے لیے بھی اور اسی کی درخواست تمام مومنین کے لیے بھی۔ دعا کے وقت اس کے سامنے جو سب سے بڑا مسئلہ ہو وہ دنیا کا نہ ہو بلکہ آخرت کا ہو جہاںابدی طورپر آدمی کو رہنا ہے۔ ان آداب کے ساتھ جو دعا کی جائے وہ پیغمبرانہ دعا ہے اور ایسی دعا اگرسچے دل سے نکلے تو وہ ضرور خدا کے یہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔